سانحہ طورخم
تحریر: سدھیر احمد آفریدی
28 ویں رمضان کی بابرکت رات تھی دو بجے کا وقت تھا ڈرائیورز کچھ چھوٹے سلینڈرز لگا کر سادہ سالن پکانے میں مصروف تھے جبکہ کچھ ڈرائیورز روزہ دار پورا دن راستے میں اور پھر طورخم میں ذلیل ہونے اور تھکاوٹ کی وجہ سے ابھی سوئے ہوئے تھے جاگے اور سوئے ہوئے افغان مسافر ڈرائیورز شاید اس آرمان میں تھے کہ کل صبح جلدی ان کی گاڑیاں کلئیر ہو کر ان کو گیٹ پاس ملے اور وہ طورخم بارڈر پار کرکے اپنے بچوں اور رشتہ داروں کے ساتھ عید منائیں مگر دوسری طرف شاید وہ یہ بھی افسوس کرتے ہونگے کہ وہ تو پرائی گاڑیاں چلانے والے غریب ڈرائیورز ہیں جن کی ساری زندگی مسافری اور دوسروں کے کاروبار میں اضافہ کرنے میں گزر گئی مگر ہائے کاش وہ دس ہزار کی تنخواہ میں گھروں کے اخراجات پورے کرتے، خوراکی سامان خرید کر ڈالتے یا اپنے چھوٹے ننھے منے بچوں کی خواہشات پوری کرتے تاکہ ان کے پیارے بچے بھی کچھ نئے کپڑے اور جوتے پہنتے اور دیگر امیر گھرانوں کے بچوں کے ساتھ کھیل کود اور عید کی خوشیاں مناتے اور یہی خواہشات فطری طور پر ہر کسی کی ہوتی ہیں لازمی بات ہے مزدور کار مسافروں کی بھی یہی خواہشات ہوتی ہیں اور یہی سوچ و فکر ان کو بے چین رکھتی ہے مگر طورخم سانحہ کے شکار ان غریب مسافر ڈرائیورز کو معلوم نہیں تھا بے خبر تھے کہ کائنات کے بے نیاز مالک نے ان کے متعلق کیا فیصلہ کر رکھا ہے وہ نہیں جانتے تھے جس طرح کوئی جاندار نہیں جانتا کہ کس وقت اس کی روح قبض کر لی جاتی ہے ابھی ان مسافروں کی زندگی کے بھی آخری لمحات تھے شاید وہ اس سوچ سے بھی بےنیاز تھے کہ مشکل ہے وہ عید گھر والوں کے ساتھ منائیں اور بس تھوڑی دیر بعد ان کو شہید ہو کر ان کی روحوں کو جنت کی طرف دائمی سفر کرنا ہوگا انہی لمحات میں اچانک زور دار آواز اٹھتی ہے اور آنکھ جھپکتے ہی سخت پتھریلے پہاڑ کا بہت بھاری تودہ ان سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے آس پاس کی آبادی کے لوگ اور دور کھڑی دیگر گاڑیوں کے ڈرائیورز الرٹ ہوجاتے ہیں اچانک ان کی زبانوں پر استغفراللہ،اللہ اکبر کی ورد شروع ہوتی ہے،اٹھ کھڑے ہو جاتے ہیں اور زور دار آواز جہاں سے آئی اس سمت دیکھ کر وہ گھنے گرد کے بادل دیکھتے ہیں اور یوں سانحہ طورخم برپا ہوتا ہے جو اس محدود علاقے میں قیامت صغریٰ سے کم نہیں تھا طورخم میں موجود سرکاری اور غیر سرکاری لوگوں نے دوڑ کر جب دیکھ لیا کہ پہاڑ کا بہت بڑا اور بھاری ٹکڑا بڑے بڑے پتھروں کی صورت میں طورخم کی اکسپورٹ روٹ پر مال بردار گاڑیوں پر آگرا ہے تو موقع ضائع کئے بغیر موجود لوگوں نے موبائلز کا ڈیٹا آن کیا اور اس سانحہ کی بری خبر سوشل میڈیا پر ڈال دی چونکہ رمضان میں تو اکثر لوگ سحری تک جاگے رہتے ہیں اس لئے لوگوں تک خبر پہنچ گئی اور کچھ ہی سیکنڈز میں یہ خبر ہر سوں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی داد دیتا ہوں آس پاس کے لوگوں اور لنڈی کوتل کی پوری آبادی کو جن کے نوجوانوں نے سحری کی فکر چھوڑ کر طورخم کا رخ کیا تاہم جب لوگ وہاں پہنچے تو سمجھ گئے کہ یہ ملبہ ہٹانا ان کے بس کی بات نہیں ریسکیو 1122 کے اہلکاروں اور بلا شبہ ڈپٹی کمشنر خیبر عبدالناصر نے بھی طورخم پہنچنے میں دیر نہیں لگائی پہاڑی تودے کا ملبہ زیادہ اور پتھر بڑے اور بھاری تھے اس لئے فوری طور پر ملبہ ہٹانے کا کوئی انتظام نہیں تھا اور نہ ہی طورخم میں تعمیراتی کام کرنے والے ٹھیکیدار این ایل سی کے پاس کوئی مشینری تھی جس سے ملبہ ہٹا کر انسانوں اور گاڑیوں کو نکال لیتے بحر حال ریسکیو کے لئے جو آوزار، سہولیات اور مشینری درکار ہوتی ہیں وہ موجود نہیں تھی اور ہاتھوں سے رضاکاروں کی صفائی اور ملبہ ہٹانے کی کوشش کارگر نہیں تھی طورخم سانحہ کیوں پیش آیا؟ اس پر بات کرتے ہوئے ہر کسی نے کہا کہ این ایل سی کے انجینئرز نے اس پہاڑ میں کچھ عرصہ پہلے روڈ کی توسیع کے لئے بلاسٹ کئے تھے لیکن حفظ ما تقدم کے طور پر کوئی احتیاطی اور حفاظتی اقدامات نہیں کئے تھے ان کو چاہئے تھا کہ بلاسٹنگ کے بعد پہاڑ کا جائزہ لیتے جس طرح اب لیتے ہیں کہ آیا دھماکوں کے بعد اس پہاڑ کا کچھ حصہ کمزور ہو کر گرے گا تو نہیں اور دوسری بات یہ کہ این ایل سی والوں نے کیونکر اس مقام پر گاڑیوں کو پارک کرنے کی اجازت دی تھی جو بھی کہہ لیں مقامی لوگوں اور سیاسی زعماء کے اس مطالبے میں بڑا وزن ہے کہ این ایل سی طورخم کے حکام،ٹھیکیدار اور انجینئرز کے خلاف فوری کارروائی ہونی چاہئے ان کی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے اتنا بڑا سانحہ رونما ہوا اس لئے غفلت کے مرتکب تمام متعلقہ افراد کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے،ان کو آئندہ کہیں کام کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے اور جو مالی اور جانی نقصان ہوا ہے اس کا ازالہ این ایل سی طورخم کریں این ایل سی طورخم کی دوسری بڑی کمزوری جو ہر خاص و عام کی زبان پر ہے وہ یہ کہ اتنا بڑا اربوں روپے کا پروجیکٹ کر رہے ہیں مگر ان کے پاس بھاری مشینری ہے جو بوقت ضرورت کام آسکے ان کے پاس جو کرین تھے وہ شاید چالیس ٹن یا اس سے کم تھے اس سے زیادہ نہیں تھے اگر مناسب مشینری ہوتی تو شاید ملبے تلے دبے انسان زندہ نکال لئے جاتے اس لئے ہر کوئی کہتا ہے کہ سانحہ بھی این ایل سی کی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے ہوا اور بعد میں اگر لاشیں بروقت نہیں نکالی جا سکیں تو اس کی ذمہ داری بھی لوگوں نے این ایل سی پر ڈال دی اس سانحہ میں 8 افراد شہید ہوئے اور تقریباً 20 کے قریب گاڑیاں کنٹینرز اور سامان سمیت تباہ ہوئیں ضلعی انتظامیہ کی پریس ریلیز کے مطابق 5 دنوں میں %80 ریسکیو آپریشن مکمل کر لیا گیا یے اور مکمل صفائی اور اکسپورٹ روٹ کی کلئیرنس تک آپریشن جاری رہیگا جیولوجیکل سروے ٹیم نے بھی دورہ کرکے پہاڑی کا جائزہ کیا جس کی رپورٹ بعد میں پیش کی جائیگی تاکہ معلوم ہو سکے کہ آئندہ تو تودہ گرنے کا خطرہ نہیں حالانکہ جیولوجیکل سروے کی ضرورت اس وقت تھی جب پہاڑ کے اس حصے میں بلاسٹنگ کی گئی تھی اس لئے تو لوگ این ایل سی طورخم کی نااہلی اور غفلت پر شور مچا رہے ہیں موصولہ معلومات کے مطابق این ایل سی طورخم والے ہر گاڑی سے 35 سو روپے سروس چارجز کے نام پر لیتے ہیں اور شاید کانٹا کی رقم اس سے علیحدہ ہے جس میں سے خوگہ خیل قبیلے کو بھی معاہدے کے مطابق تقریباً چھ سو روپے فی ٹرک دیتے ہیں اتنی بڑی رقم لینے کے باوجود بھی اگر ان کے پاس ہیوی مشینری نہیں تو پھر لازمی بات ہے لوگ سوالات اور اعتراضات کرینگے اور ویسے بھی لنڈی کوتل کے عوام این ایل سی کو اچھی نظروں سے اس لئے نہیں دیکھتے کہ اس کی وجہ سے مقامی لوگوں اور خاص کر مزدور طبقات کا معاش برباد کر دیا گیا ہے سانحہ طورخم واقعی اتنا بڑا تھا کہ اس کا زکر کئی دنوں تک سوشل میڈیا پر بغیر کسی وقفے کے جاری رہا ضلعی انتظامیہ، ریسکیو 1122، مقامی سول انتظامیہ کے آفسران، ڈی پی او خیبر سلیم عباس کلاچی، کمانڈنٹ خیبر رائفلز،الخدمت فاونڈیشن، مقامی رضاکاروں،سیاسی اور سماجی شخصیات اور کارکنوں نے رمضان المبارک کے روزوں کے باوجود وہاں اپنی حاضری یقینی بنائی اور جو کچھ خدمت ممکن تھی وہ کر گئے تاہم لوگ اس حد تک مشتعل تھے کہ جب گورنر خیبر پختونخوا غلام علی اور وزیر اعلٰی اعظم خان نے کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جرنل حسن حیات کے دورے کے ایک دن بعد دورہ کیا تو لوگوں نے طورخم میں سائٹ کے موقع پر ان کو اور ان کی گاڑی کو گھیر لیا اور ان دونوں بڑوں کو بات کرنے کا موقع بھی نہیں دیا اور این ایل سی کے خلاف غصہ اور بھڑاس ان پر نکال دیا اور یہی پبتی کھستے رہے کہ آخر حکمران طبقات قبائلی عوام کے مسائل کے حوالے سے کیوں غیر سنجیدہ ہیں اور کیونکر قبائلی علاقوں میں سہولیات نہیں دے رہے ہیں اور جب ایسے سانحات پیش ہوتے ہیں تو صرف فوٹو سیشن کی حد تک محدود رہتے ہیں عملی اقدامات نہیں کرتے ہیں اس عوامی غوغہ اور شور مچانے کے بعد گورنر اور وزیر اعلٰی نے لنڈی کوتل کی پانچ سیاسی اور سماجی شخصیات سے میچنی پر ملاقات کی اور ان کو یقین دلایا کہ ملبہ ہٹانے اور لاشیں سمیت گاڑیاں نکالنے کے لئے کوئی کوتاہی نہیں کی جائیگی اور موقع پر ڈپٹی کمشنر خیبر عبدالناصر خان کو ہدایت دی کہ فوری طور پر تین بھاری کرینوں اور دیگر ریکوری کی مشینری کا اہتمام کریں تاکہ جلد از جلد ریسکیو آپریشن مکمل کیا جا سکے واقعی پھر ہیوی مشینری پہنچا دی گئی اور پانچ دنوں میں اسی فیصد آپریشن مکمل کر لیا گیا لاشیں اور تباہ شدہ گاڑیاں نکال لی گئیں عید ہی کے دن آئی جی ایف سی میجر جنرل نور ولی خان نے بھی سانحہ طورخم کی سائٹ کا دورہ کیا اور ریسکیو سرگرمیوں کا جائزہ لیا اور متعلقہ حکام کو ضروری ہدایات دیں انسانی جانوں کا نعم البدل تو نہیں ہو سکتا مگر پھر بھی جو افغان ڈرائیورز اس سانحے میں شہید ہو گئے ہیں یا جن کی گاڑیاں اور سامان برباد ہوا ہے ان کا ازالہ کرنا حکومت پاکستان اور این ایل سی کی ذمہ داری ہے جو کے پورا کیا جانا چاہئے آخر میں سب سے اہم بات کی طرف آتے ہوئے گزارش کرینگے کہ طورخم میں اکسپورٹ اور امپورٹ گاڑیوں کی کلئیرنس میں تاخیر نہ کی جائے جتنی جلدی ہو سکتا ہے گاڑیوں کو کسٹم سے کلئیر کیا جانا چاہئے اور جب کسٹم حکام کی طرف کسی گاڑی کو گیٹ پاس مل جائے پھر این ایل سی یا ایف سی اہلکاروں کو چیکنگ کے نام پر یا دوسرے بہانوں کی بنیاد پر گاڑیوں کو روکنا نہیں چاہئے اور ویسے بھی این ایل سی کا سکینر،کسٹم حکام اور ایف سی کی چیکنگ اگر کارگر ہوتی تو سمگلنگ نہ ہوتی ملبے تلے دبے کنٹینرز میں سے چینی کی بوریوں کا برآمد ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ طورخم کے راستے بڑے پیمانے پر سمگلنگ ہوتی رہی ہے اور یہ معمولی لوگ نہیں کرتے کسٹم کلئیرنگ ایجنٹس کے چند بڑے بڑے سرغنے جن کی رسائی اعلٰی حکام تک ہوتی ہے وہی سمگلنگ کرتے رہے ہیں ورنہ وہ آج کروڑ پتی اور ارب پتی نہ ہوتے جب اکسپورٹ خراب ہو یا اکسپورٹ والی گاڑیوں کی کلئیرنس اور بروقت سرحد پار کرنے میں تاخیر ہو تو اس سے قومی خزانے اور انڈسٹری کی صنعت کو بھی نقصانات ہو رہے ہیں اور افغانستان جو کہ پاکستانی مصنوعات کی بہت بڑی مارکیٹ ہے وہ ہمارے ہاتھوں سے نکل جائیگا تو پھر وہاں کی مارکیٹوں میں انڈیا، ایران اور سنٹرل ایشیا کی مصنوعات جگہ لیگی اور اکسپورٹ کی کلئیرنس میں شعوری طور پر تاخیری حربے اپنانے سے ایسے سانحات بھی رونما ہوتے ہیں اور اگر دیکھا جائے تو درہ خیبر پر ہر روز سینکڑوں گاڑیاں قطاروں میں کھڑی نظر آتی ہیں جن کی وجہ سے مقامی چھوٹی ٹرانسپورٹ کو بھی مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ٹریفک حادثات بھی پیش آتے ہیں اور لنڈی کوتل پولیس بےنمبری کے نتیجے میں ٹرانسپورٹرز کے چمڑے بھی ادھیڑ دیتے ہیں کس کس بات کا رونا رو کر شکایت کرینگے ہر طرف بگاڑ ہی بگاڑ ہے کہیں اصلاح کی روشنی دکھائی نہیں دیتی۔
Nice post. I learn something totally new and challenging on websites I stumbleupon every day. It will always be helpful to read content from other writers and use a little something from other websites.
1 Comment
Nice post. I learn something totally new and challenging on websites I stumbleupon every day. It will always be helpful to read content from other writers and use a little something from other websites.