نوشھروفیرو (رپورٹ: محمد اکرام/ ای این این) ایڈیشنل سیشن کورٹ ایک نوشھروفیرو کے فیصلے نے سود خوروں کو خوش کردیا، 4 لاکھ لینے والے شخص نے 16 لاکھ دیدیے پھر بھی عبدالوحید شیخ کی عدالت نے اس کے اوپر دو ایف آئی آرز درج کرنے کا حکم دیدیا۔
پولیس نے بھی موقع غنیمت جانتے ہوئے سود خوروں سے مبینہ طور پر پیسے لیکر ایک شخص کے خلاف دو ایف آئی آرز درج کرلی۔
خیال رہے کہ بنک نے چیک پر دستخطوں کو مشکوک قرار دیا، معاھدے کی بھی کاپی مشکوک ہونے کے باوجود معزز جج نے مقدمات کا حکم دیکر سود خوروں کو خوش کردیا، کیونکہ ایگریمنٹ پر انگوٹھا لگا ہوا تھا جبکہ جس کا چیک تھا وہ دستخط کرتا ہے اور اس کے قومی شناختی کارڈ میں بھی دستخط موجود ہیں۔
سود خوروں کے خلاف میڈیا پر دہائی دینے والے مٹھیانی کے رہائشی سید انوار حسین گرفتاری سے بچنے کے لیے سکھر ہائیکورٹ پہنچ گئے، جس کی عدالت نے عبوری ضمانت منظور کرلی، جبکہ جھوٹے مقدمات کو ختم کرانے کے لیے بھی ہائیکورٹ سے رجوع کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ ایس ایچ او مٹھیانی نے صحافیوں و سماجی رہنماؤں کے سامنے سود خوروں کے خلاف ایکشن کے بلند و بانگ دعوے کیے تھے تاہم عدالتی حکم نے ان کو ٹھنڈہ کر دیا۔
بتایا جاتا ہے کہ سود خور ایک لاکھ پر ہر ماہ 20 ہزار روپے سود لیتے ہیں اور گارنٹی کے طور پر لوگوں سے خالی چیک لے لیے جاتے ہیں یا سونہ یا پراپرٹی کے کاغذات بھی لیے جاتے ہیں۔
اگر کوئی سود یا رقم واپس نہ کرے تو بدمعاشوں کے استعمال سمیت، پولیس اور عدالتوں کا سہارا لیکر لوگوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسایہ جاتا ہے۔
اس ضمن میں انسانی حقوق کے رہنما لالا ایم حسن ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ عدالت عالیہ نے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں حکم کر رکھا ہے کہ سود خوروں کے خلاف متعلقہ پولیس کارروائی کرے لیکن بد قسمتی سے لوئر کورٹس کے کچھ جج صاحبان ان کو خالی چیک کے نام پر رلیف دے رہے ہیں۔ اللہ کے نزدیک بھی سود انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ اس حوالے سے پولیس اور عدلیہ میں مزید شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔