International Day against Death Penalty: سزائے موت ہونی چاہیے؟ - Eye News Network

International Day against Death Penalty: سزائے موت ہونی چاہیے؟

0

 اب تو سزائے موت بھی ختم ہو گئی ہمارے ملک میں اور میری معصوم بیٹی کا قاتل شوہر جیل سے فرار ہوچکا ہے۔ اس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی اور بولنے لگی کہ بھتر ہو گا کہ ہم اس سے صلح کر لیں ورنہ وہ مہیں بھی مار دیگا اور اس کو ہوگا بھی کچھ نہیں! کیونکہ موت کی سزا اب نہیں ہوگی ایسے قاتلوں کو۔ پھر کیا مجبور اور بے بس لوگوں کو ایسے ہی مارا جاتا رہے گا؟ یے کہنے کے بعد اس نے رونا شروع کر دیا۔

جیسا کہ میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والا ایکٹوسٹ ہوں سو میں بھی سزائے موت کے خلاف رہا ہوں لیکن اس ماں کے خیالات جو کہ سیکڑوں و ہزاروں افراد کے خیالات  کی ترجمانی کر رہے تھے جن سے ان کے پیارے قاتلوں نے چھین لیے ہیں، بس اسی ہلچل نے مجبور کیا کہ میں اس اشو پر کچھ لکھوں۔

اس اشو پر لکھنے سے پہلے ہم مختصر جائزا لیتے ہیں کہ سزائے موت کن ممالک میں دی جاتی رہی ہے اور کن ، کن جرائم پر ہوتی ہے۔ساتھ ہی وہ کون سے ممالک ہیں جنہوں نے سزا پر عمل درآمد روک رکھا ہے یا سزائے موت کا خاتمہ کر دیا ہے۔ جبکہ اس پے بحث ہوگی کہ اس کے حق میں اور مخالفت میں کیا، کیا دلائل موجود ہیں۔

 تحقیقات کے مطابق دنیا کے اکثرمما لک میں سزائے موت دی جاتی رہی ہے اور اس کی تاریخ بھی کافی پرانی ہے۔ جبکہ سب سے زیادہ سزائے موت دینے والے ممالک میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے، چین، ایران، سعودی عرب اور امریکہ سر فہرست رہے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق اقوام متحدہ کے 195 رکن ممالک میں سے  51 فیصد ممالک سزائے موت کو ختم کر چکے ہیں جبکہ کافی ممالک نے کچھ خاص حالات جیسے جنگ وغیرہ میں اس کو قانونی تحفظ دے رکھا ہے۔
Capital Punishment

                ہمارے ملک کے قانون میں شامل ہے لیکن 2008 سے اس پر عمل درآمد   صدارتی حکم کی روشنی میں روک دیا گیا ہے لیکن انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے دعوا کیا ہے کہ سن 2012 میں ایک پھانسی کی سزا ہوئی۔  اسی سال سب سے زیادہ سزائے موت چین میں دی گئی جہاں 2000 سے زائد افراد کو سزا دی گئی جبکہ ایران میں 314، بھارت میں ایک، امریکہ میں 43، سعودی عرب میں 79، عراق میں 129، جاپان میں 7، کوریا 6، افغانستان مین 14 سے زائد افارد کو سزائیں دی گئیں۔ سعودی عرب اور ایران ان ممالک میں شامل ہیں جہاں ملزمان کی عمر جرم کے وقت 18 سال سے کم تھی لیکن اس کے باوجود ان کو سزائیں دی گئیں۔

اس وقت 35 سے زائد ایسے ممالک ہیں جہاں سزائے موت قانون میں موجود ہیں جن میں امریکہ، افغانستان، ایران، بھارت، پاکستان، چین، کیوبا، عراق، جاپان، شمالی کوریا، مصر، انڈونیشیا، لبنان، ملائیشا، شام، روس، سعودی عرب، سنگاپور، یمن، متحدہ عرب امارات و دیگر شامل ہیں۔

جبکہ پہلے اس سزا کا استعمال کرنے والے ممالک میں آسٹریلیا، بیلجم، آسٹریا، ڈینمارک، بوٹان، کینیڈا، فرانس، جرمنی، ہانگ کانگ، ہنگری، اسرائیل، ترکی، افریکہ، برطانیہ، سویڈن، سربیا، وینزویلا، سوئیزر لینڈ، قبرص اور دیگر شامل ہیں۔ یہاں پے ایک دلچسپ سوال یے بھی اٹھتا ہے کہ اسرائیل نے سزائے موت ختم کر کے عالمی سطح پر واہ ، واہ تو حاصل کر لی لیکن اس پر ہزاروں فلسطینیوں کو مارنے کا الزام ہے تو نقاد یے کہنے میں حق بجانب ہیں کہ پھر کیا فائدہ اس طرح کے دکھاوے کا؟ یے سوال ان ساری ریاستوں سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ سزائے موت ختم کرکے وہی ریاستیں نہتے لوگوں کو مار رہی ہیں تو پھر ایسی چیز کا کیا فائدہ جو صرف دکھاوا ہو۔۔کیونکہ اس کے پیچھے انسانیت کے تحفظ والا فلسفا نظر نہیں آتا۔

پاکستان کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے، جہاں پر اکثر مجرمان بچ جاتے ہیں یعنی ان کو سزائیں نہیں ہوتی۔ کہا یے جاتا ہے کہ پولیس ثبوت پیش نہیں کر پاتی اور پراسیکیوشن میں کمزوریوں کی وجہ سے مجرمان بچ جاتے ہیں۔ ججز کا کہنا ہوتا ہے کہ ناکافی ثبوت کی بنا پر وہ ملزمان کو سزائیں نہیں دے پاتے۔ دوسری جانب پولیس افسران کہتے ہیں کہ لوگ گواہی دینے نہیں آتے۔ جبکہ لوگوں کا ماننا ہے کہ کرپشن، گواہان اور ورثا کو تحفظ نہ ہونے کی وجہ سے مجرمان بچ جاتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ پولیس ڈپارٹمینٹ اور لوئر عدلیہ میں کرپشن کی وجہ سے ملزمان بچ جاتے ہیں۔

ایسی صورتحال میں یے سوال اور بھی اہیت غور طلب ہو جاتا ہے کہ جہاں پر اکثر ملزمان چھوٹ جاتے ہیں وہان پر سزائے موت جیسی سزا کو ختم کر دینا کہیں مزید غتل و غارتگری کا سبب تو نہیں بنیگا؟ اس سوال پر کوئی رائے دینے سے پہلے اگر ہم جائزہ لیں کہ سزائے موت کن ، کن جرائم پر اور کیسے ہوتی رہی ہے تو اندازہ ہوگا کہ وہ ہونی چاہیے یا نہیں؟

دینا کے زیادہ تر ممالک میں قتل، غداری، جاسوسی، منشیات اور جنگی جرائم کے ارتکاب پر دی جاتی ہیں جبکہ سزائیں دینے کے مندرجہ ذیل طریقے استعمال کیے جاتے ہیں:

 پھانسی، زہریلا انجیکشن، فائرنگ اسکواڈ کے ذریعے، بجلی کی کرسی، سر دھڑ سے جدا کرنا، پتھر سے مارنا، زہریلی گئس کے ذریعے مارنا و دیگر شامل ہیں۔ سنگسار کی سزا زیادہ تر اسلامی ممالک میں دی جاتی ہے۔ اس حوالے علما کہتے ہیں کہ موت کی سزا ہونی چاہیے کیونکہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے۔ اسلامی قوانین کے مطابق سزائے موت دی جا سکتی ہے اور وہ زہادہ تر دو جرائم جن میں قتل اور بدکاری اور زنا باالجبر شامل ہیں، جبکہ جنگ کے دوران بھی موت کی سزا دی جاتی رہی ہے۔

 اسلامی قانون میں دیت کا قانون بھی شامل ہے جس کے تحت ورثا ملکیت و جائداد یا پھر خدا کی راہ میں بھی خون معاف کر سکتے ہیں، جس کی سب سے بڑی مثال امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس تھا، جسے چھوڑ دیا گیا۔ اسی طرح بہت سارے کیسز میں عدالتوں یا عدالتوں سے باہر خون معاف کیے جاتے رہے ہیں۔ صرف ایک کیس کی مثال دی جا سکتی ہے جس میں عدالت نے ایک ماں کو قتل کرنے والے مجرم کو دیت کے تحت تو سزا معاف کر دی لیکن فساد فی الارض کے زمرے میں اسے سات سال کی سزا سنائی جو کہ صوبا سندھ کے ضلع خیرپور میرس میں پیش آیا تھا۔

جبکہ آج کل بھی اس پے بحث چل رہی ہے کہ دہشتگردی کے کیس قتل کی دیت تو ہو سکتی ہے لیکن اس ملزم کو آزاد نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے دہشتگردی پھیلانے کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔ اور یے بحث اس وقت زیادہ تیز ہوئی جب شاہ زیب قتل کیس میں ورثا نے ملزمان کو خون معاف کار دیا۔ ہو سکتا ہے کہ عدلیہ اس بار بھی سندھ کو مثال بنائے اور ملزمان کو سزا دی جائے۔ اس ضمن میں سوال ئے پیدا ہوتا ہے کہ اگر قانون میں ئے آپشن موجود ہے تو اس کا اطلاق سب پے ہونا چاہیے اور قاتل کو کسی قیمت پر نہ چھوڑا جائے۔

سزائے موت کے حوالے سے عام لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں پہلے ہی جرائم پیشہ افراد کو سزائیں نہیں ہوتی اوپر سے اگر سزائے موت بھی ختم کردی جائے تو یے تو قاتلوں کو لائیسنس دینے والی بات ہو جائیگی۔ دوسری جانب انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا یے واضع موقف رہا ہے کہ سزائے موت نہیں ہونی چاہیے ، یہی وجہ ہے کہ کافی ممالک نے سزائے موت ختم کر دی ہے یا اس پر عمل درآمد روک رکھا ہے۔ جبکہ کافی ممالک نے سرف جنگی حالت میں اس کے اطلاق کو جائز رکھا ہوا ہے۔ اس حوالے سے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے صحافی کا کہنا تھکہہ پاکستان گذشتہ دس سال سے جنگی حالت میں ہے اس لیے وہاں موت کی سزا سمیت جتنے بھی جرائم ہیں ان پر سخت سزائیں ہونی چاہییں۔

میں ایک عام شہری اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن کی حیثیت سے سمجھتا ہوں کہ اس ماں جس کا شروع میں ذکر کیا گیا، سمیت سب انسانوں کو انصاف ملنا چاہیے جن سے ان کے پیارے قاتلوں نے چھین لیے ہیں۔

ملک میں قانون کی حکمرانی ہو۔ جب کہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں کو کشمیر سمیت دنیا بھر میں ہونے والے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے اوپرمزید موثر آواز اٹھانی چاہیے۔

 (Published in 2013) قاتلون اور جرائم پیشہ افراد چاہے وہ فرد ہوں یا کوئی عالمی طاقت، کے لیے انسانی سلوک کی اپیل کے ساتھ مظلوموں کے حقوق کو زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔

About Author

Leave A Reply