انٹرنیشنل ڈیسینٹ ورک ڈے منایا گیا، ٹھیکیداری نظام کے خاتمے کا مطالبہ - Eye News Network

انٹرنیشنل ڈیسینٹ ورک ڈے منایا گیا، ٹھیکیداری نظام کے خاتمے کا مطالبہ

0

کراچی ( ای این این نیوز) ’’ انڈسٹری آل گلوبل یونین ‘‘ کی اپیل پر 7 اکتوبر کودنیا بھر میں ’’ انٹر نیشنل ڈیسنٹ ورک ڈے‘‘منایا جا رہا ہے ۔ اس دن کی مناسبت سے ’’نیشنل ٹریڈیونین فیڈریشن اور ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن کے زیر اہتمام  کراچی پریس کلب پر مرکزی صدر رفیق بلوچ، زہر اخان و دیگر کی قیادت میں احتجاجی ریلی نکالی گئی۔   احتجاجی ریلی میں مختلف صنعتوں سے وابستہ محنت کش اور گھر مزدور عورتیں شریک ہوئیں جنھوں نے اپنے مطالبات پر مبنی بینرزاور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے ۔

اس موقع پر احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے رہنماؤں نے کہا کہ سرمایہ دارانہ نظام کے بحران نے مزدوروں کی صدیوں کی جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجے میں حاصل کردہ مراعات کو تیزی سے چھیننا شروع کر رکھا ہے جس کا سفاک اظہار نہ صرف ترقی پذیر بلکہ صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک میں نظر آتا ہے ۔اس عمل کا سب سے گھناؤنا اظہار تمام پیداواری شعبوں میں غیر محفوظ کام (Precarious Work)کادھڑلے سے جاری ہونا ہے ۔ مختلف ممالک کی طرح پاکستان میں بھی مزدوروں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو غیر مستقل بنیادوں پر پیداواری عمل میں دھکیلا جا رہا ہے جس کے باعث مستقل ملازمتیں ، اچھی تنخواہ اور کام کا محفوظ طریقہ کار محنت کشوں کے لیے ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔

مزدور رہنماؤں نے کہا کہ مزدور مارکیٹ کے رحم وکرم پر ہیں جن کے اصول بڑی بڑی کارپوریشنز اور ملٹی نیشنل اور بڑے بین الاقوامی مالیاتی ادارے طے کرتے ہیں ۔ ٹھیکہ داری نظام اپنی بھیانک شکل میں رائج ہے جس کے ذریعے صنعتکاروں نے تمام قانونی دائروں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مزدوروں کو قرون وسطیٰ کے غلامانہ دور میں دھکیل رکھا ہے۔ ملک کے 75%سے زائد محنت کش پیداوار کے غیر منظم شعبے میں کام کرنے پر مجبور ہیں ، جہاں ٹھیکہ داری نظام اور تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ مزدوروں کو ہر قسم کے قانونی حقوق سے محروم کر رہا ہے ۔ قلیل اجرتیں، طویل اوقات کار، سوشل سیکورٹی اور بڑھاپے کی سہولیات بشمول پنشن سے محرومی اور ہیلتھ و سیفٹی کی سہولیات کی عدم موجودگی ورکرز کا مقدر بنا دی گئی ہے اور اس صورتحال کے تدارک کے لیے محنت کشوں

کی اکثریت یونین سازی اور اجتماعی سودا کاری کے حق سے بھی جبراََ محروم رکھی گئی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ غیر محفوظ کام کے نتیجے میں پانچ سال قبل سانحہ بلدیہ (علی انٹر پرائز ) میں 260 محنت کش اور گزشتہ سال یکم اکتوبر کوگڈانی شپ بریکنگ میں   30 مزدور اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے لیکن ان واقعات سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا ۔احتجاجی مظاہرے میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ   نامے( اپائمنٹ لیٹر) جاری  ٹھیکہ داری نظام ختم اور تمام ورکرز کو تقرر اورمستقل نوعیتِ کار کے لیے ملازمت بھی مستقل کی جائے۔

  فیکٹریوں ،کارخانوں اور کام کی جگہوں پر لیبر قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرتے ہوئے کام کی جگہوں کو محفوظ اور محنت کشوں کی ہیلتھ و سیفٹی یقینی بنائی جائے۔

  ہیلتھ وسیفٹی کا قانون فی الفور پاس کرتے ہوئے اس پر عمدرآمد کو یقینی بنایا جائے ، پرائیویٹ سوشل آڈیٹنگ سسٹم ختم اور لیبر انسپیکشن کو مؤثر بنایا جائے۔

  ہوم بیسڈ ورکرز سمیت غیر منظم شعبے کے مزدوروں کو قانون کے دائرے میں لایا جائے اور ہوم بیسڈ پالیسی کو قانون کا حصہ بنایا جائے۔

ای او بی آئی  یونین سازی اور اجتماعی سوداکاری کے حق کو یقینی بنایا جائے  تمام ورکرز    اور سوشل سیکورٹی کے اداروں سے رجسٹرڈ کیا جائے۔

  اداروں کی نجکاری اورغیر قانونی و جبری برطرفیاں بند کی جائیں۔ کم ازکم تنخواہ 25000روپے کی جائے اور اس میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کیا جائے۔

  احتجاجی ریلی سے خطاب کرنے والوں میں ’’ نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن  کے مرکزی صدر رفیق بلوچ ، ڈپٹی جنرل سیکریٹری ناصر منصور ، ’’ ہوم بیسڈ وومن ورکرزفیڈریشن

مرکزی جنرل سیکریٹری زہر اخان، گل رحمن، ریاض عباسی،  سائرہ فیروز، شبنم اعظم، بشیر احمد محمودانی، عبدالعزیز خان، مشتاق علی شان و دیگر شامل تھے۔

About Author

Leave A Reply