ضلع ابیٹ آباد کے 2 قومی اور 4 صوبائی حلقوں پر لوگوں کا کہنا ہے کہ تعصب کی سیاست کی چادر پڑ چکی۔سرکل بکوٹ میں پہلی بار ووٹ کے حصول کے لئے خواتین کی کارنر مٹینگ ہوئی۔دوسری طرف بیلٹ پیپر پر موجود خواتین امیدواروں کا فیلڈ میں نام و نشان بھی نہیں۔خواتین کو صرف شو پیس بنا کر میدان میں لایا جا رہا ہے۔
الیکشن 2018میں ملک بھر کی طرح ہزارہ ڈویژن کے مرکز ضلع ابیٹ آباد سے بھی 2قومی اسمبلی اور4صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر12مرد اور ایک خاتونA.16پر18مرد جبکہ PK.36میں 15مرد ایک خاتون Pk.37ے 16مرد2خواتینPK.38سے17مرد2خواتین اور شہری حلقہPk.39ابیٹ آباد سے 15مرد امیدوار بیلٹ پیپرز پر اپنے اپنے انتخابی نشانات لینے میں کامیاب ہوئے،جبکہ ہر حلقہ سے درجن بھر امیدواروں میں سے آخر میں 2سے3امیدوارہی مقابلے کی دوڑ میں رہ جائیں گے۔تاہم بدلتی صورت حال میں ایک یا دو سیٹوں کے علاوہ کہیں کوئی بڑا اپ سیٹ ہوتا نظر نہیں آرہا ،البتہ الیکشن کے شروع ہوتے ہی جو ایک بڑی لہر قبائل کے تعصب کی چلی تھی وہ بتدریج قبیلوں سے نکل کر علاقوں کی حد تک رہ کر دم توڑ گئی اور اس کی جگہ منافقت کی سیاہ چادر نے لے لی۔
ضلع ابیٹ آباد کی سیاست کو ہمیشہ امن رواداری عزت احترام کی سیاست کا امین کہا جاتا رہا ، بابا سردار حیدرزمان سردار مہتاب عباسی اور امان اللہ جدون جیسی قد آور شخصیات کی بدولت دوسرے اضلاع کے مقابلے میں ابیٹ آباد میں نہ تو کبھی گروہی نسلی یا جرائم پیشہ افراد کی سیاست کو جگہ مل سکی،مگر الیکشن 2018کے آغاز میں اچانک ایک لہر اٹھی اور ہر طرف جدون، اعوان، عباسی اور سردار کڑلال قبیلے کے امیدواروں کے حامیوں نے جگہ سنبھالی مگر بہت ہی جلدجب عام عوامی ردعمل سامنے آیا تو یہ سیاست دفن ہوئی اور اس کی جگہ منافقت کی سیاست شروع ہوگی۔اس وقت ابیٹ آباد کے دو قومی اسمبلی کے حلقوں کی تقسیم کے بعد NA.16جو کہ شہری حلقہ جسکی سیاست کا محور مرکز ابیٹ آباد شہر ہے یہاں سے نوجوان علی خان جدون PTIشوکت تنولی آذاد (نظریاتیPTIگروپ)ایاذ خان جدون جماعت اہلسنت نشان استری ملک مہابت اعوان مسلم لیگ شیرکے ساتھ نمایاں مقابلے لے امیدوار ہیں۔
اس حلقہ میں آغاز میں کہا جا رہا تھا کہ امان اللہ جدون کے فرزند علی خان جدون کے مد مقابل دور دور تک کوئی نہیں اور جدون اتحاد کا نعرہ کہ صوبائی سیٹ پر ان کے تایا زاد مسلم لیگ کے راہنما سابقہ MPA عنایت اقبال جدون ہوں گے انکے بعض نادان سپورٹر کے اس نعرے کو مبینہ عوامی رائے کے مطابق ایبٹ آباد سے سردار مہتاب عباسی کے سیاست سے ہٹنے کے بعد اعوان قبیلہ کے بعض لوگوں نے بھی اپنایا کہ اب تو قومی اسمبلی پر مسلم لیگ ن کے مہابت اعوان اورصوبائی حلقہ PK-38 میں مسلم لیگ کے ارشد اعوان کی جوڑی ہوگی اسی طرح سرکل بکوٹ گلیات لورہ سے عباسی اور کڑلال سرداروں کی جوڑیوں اور قبیلوں کی ووٹ کے نفرت انگیز نعرے کو شدید عوامی رد عمل سامنے آنے کے بعد دفن ہونا پڑا ایبٹ آباد شہر سے اب مقابلے کی فضاء الگ نوعیت کی بن چکی ہے شوکت تنولی کا عمران خان کے کالج گراؤنڈ جلسے کے بعد اپنی چارپائی کے انتخابی نشان اور بڑی تعداد میں عوام کے ساتھ نکلنے اور ایاز خان جدون کا ووٹ بنک مسلم لیگ اور P.T.I کے امیدواروں کیلئے پریشانی کا باعث ہے جبکہ صوبائی حلقہPK-39 میں P.T.I کے سابقہ وزیر مشتاق غنی ،مسلم لیگ کے عنایت اقبال جدون اور آزاد امیدواروں وسیم خان جدون کے مابین مقابلہ متوقع ہے.
مشتاق غنی کو جہاں ایک طرف گھر سے اپنے برادرنسبتی سردار عمیر کا انتخابی نشان کرسی تنگ کر رہا ہے تو دوسری طرف P.T.I کے عمران خان کے شروع کے دنوں کے ساتھی آصف زبیر شیخ کا نشان پک اپ ووٹر کو اپنی طرف راغب کر رہا ہے دوسری طرف فائدہ عنایت اقبال جدون مسلم لیگ کے شیر کو آزاد امیدواروں وسیم خان جدون ۔پی پی پی کے قاضی شفیق جدون متحدہ مجلس عمل کے امجد خان جدون آزاد امیدوار جو نوجوانوں میں مظبوط سمجھے جاتے ہیں امجد شاہ زمان جدون کی ووٹ تقسیم ہونے کا مل رہا ہے جبکہ صوبائی اسمبلی حلقہ PK-38 سےP.T.I کے قلندر لودھی ،مسلم لیگ کے ارشد اعوان ،پیپلز پارٹی شہید بھٹو کے سلیم شاہ کے درمیان مقابلہ ہے سرکل شیروان اور چند ایک شہری یونین کونسل پر مشتمل اس حلقہ سے P.T.I کے سابقہ وزیر قلندر لودھی کوP.T.I نظریاتی کے سجاد اکبر خان کے میدان میں رہنے سے حلقہ میں نئے امیدوار ملک ارشد اعوان مسلم لیگ اور پی پی پی شہید بھٹو کے سلیم شاہ سے سخت مقابلے کی توقع ہے ۔حلقہ NA-15 سے سردار مہتاب احمد عباسی جنکا آبائی حلقہ سرکل بکوٹ جو اب PK-36 بکوٹ سرکل اور لورہ پر مشتمل ہے کے سیاست سے ہٹ جانے کے بعد انکے کزن سردار فرید خان آزاد جیپ کے نشان پر ہیں تو قومی اسمبلی میں دو سابقہ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی مرتضی جاوید عباسی مسلم لیگ اور سردار یعقوب خان آزاد جیپ کے نشان اور پوسٹروں پر اپنی تصاویر کے ساتھ اپنے بیٹے ضلعی ممبر (ر) کرنل شبیرسردارکی فوٹوسے ووٹر کو اپنی طرف راغب کرنے کے ساتھ PTIکے لئے مشکلات کے ساتھ مقابلے میں مسلم لیگ کے ہم پلہ ہو چکے ہیں مقابل ہیں تو علی اصغر خان P.T.I کی طرف سے وقتی طور پر مشکلات کا شکار ہیں جبکہ دیگر جماعتوں کی بھی حاضری کیلئے امیدواروں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے منظور ممتاز عباسی بھی قومی و صوبائی اسمبلی میں تیر کے ساتھ موجود ہیں ۔
دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ اس حلقہ میں سردار مہتاب عباسی بکوٹ سمیت کئی جگہ کارنر میٹنگ کر چکے ہیں مگر کہیں بھی انکے ساتھ مسلم لیگ کے مرتضی جاوید عباسی موجود نہیں اور وہ جیپ کے صوبائی نشان کے لیے بات کر کے جاتے ہیں جبکہ مرتضی جاوید عباسی بھی انکے نقش قدم پر چل کر اسی طرح پرانے سیاسی ٹھیکیداروں کے در پے حاضری کر کے اپنی ووٹ کی بات کر کے کھیلتے ہیں تو P.T.I کے علی اصغر خان کے حلقہ PK-37 سے امیدواروقار نبی بھی اپنی مہم اکیلے اکیلے چلا رہے ہیں ان کے مد مقابل سردار ادریس کی جیپ تیزی سے رواں دواں اور مسلم لیگ کے سردار اورنگزیب نلوٹھہ کا شیر متحدہ مجلس عمل کے عبدلرزاق عباسی کی کتاب بھی ہر جگہ پڑھی جا رہی ہے۔ PK-36 پر مقابلہ متحدہ مجلس عمل کے ساجد قریش عباسی آزاد امیدوار سردار فرید اور P.T.I کے نذیر عباسی کے مابین ہو گا اس سرکل میں تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ خواتین کیلئے جلسہ یا کارنر میٹنگ بلوائی گئی جسمیں علی اصغر خان کی بیگم سابقہ MPA ملیحہ لودھی کو مقامی آرگنائزر نے بلوایا مگر دونوں جگہ عام خواتین نے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیااور اس تبدیلی کے عمل کو کہ خواتین گھروں سے نکل کر مردوں کیلئے جلسے جلوس کریں کو پذیرائی نہ مل سکی ۔
دوسری طرف الیکشن میں حصہ لینے واکی خواتین امیدوار سرے سے ہی غائب ہیں کہیں کسی جگہ نکل کر اپنے لیے ووٹ لینے کی بات سامنے نہیں آرہی عوامی رائے ہے کہ اس الیکشن میں خواتین کو صرف ووٹ لینے اور اپنی قانونی ذمہ داری پوری کرنے کیلئے محض استعما ل کیا جا رہا ہے اور حلقہ سے باہر کی خواتین امیدوار اور سپورٹر ز خواتین کو حلقہ میں لا کر ایک نیا کلچر متعارف کروایا جا رہا ہے جس میں سفید پوش اپنی عزت بچانے کے چکر میں ہیں ۔
خانس پور ایوبیہ میں سر بازار ایک عورت کی طرف سے مرتضیٰ جاوید عباسی سے نازیبا گفتگو اس پہاڑی خطہ کی کوئی بھی با حیا عورت نہیں کر سکتی ہے مرتضی جاوید عبا سی کو بے عزت کروانا اس سلسلے کی ایک کڑی ہو سکتی ہے، اس سے الیکشن کے بعد تو یہ خواتین واپس اپنے اپنے آبائی گھروں اور شہروں کو چلی جائیں گی مگر بدنامی اور آپس کی دشمنیاں ان سادہ لوح پہاڑیوں کے مقدر میں ہوں گی ایسے عناصر پر نظر رکھنے کی ہی ضرورت ہے۔