واخان اکنامک کاریڈور! سدھیر احمد آفریدی - Eye News Network

واخان اکنامک کاریڈور! سدھیر احمد آفریدی

0

چین سے پہلی مرتبہ مال بردار ٹرین افغانستان روانہ کر دی گئی ہے بنیادی طور پر چین اور افغانستان کے مابین ریلوے ٹریک 2016 میں بچھائی گئی تھی جو چین کو افغانستان کے ساتھ براستہ ازبکستان اور قازقستان ملاتی ہے اور 2022 میں بھی بارہ ویگن پر مشتمل ایک ٹرین تقریباً 12 دنوں میں افغانستان کے صوبہ بدخشاں سے ہوتے ہوئے ہیراتان پورٹ پہنچی تھی لیکن موجودہ فریٹ ٹرین، جس کو کارگو ٹرین بھی کہہ سکتے ہیں، چین کے صوبہ ژیانگ سو کے شہر نان ٹونگ سے سیدھا افغانستان کی بندرگاہ ہیراتان روانہ کر دی گئی ہے واخان کی پٹی چین اور افغانستان کے درمیان واحد سرحدی پٹی ہے جس کی لمبائی 350 کلومیٹر اور چوڑائی 16 اور 64 کلومیٹر تک بتائی جاتی ہے یہی پٹی ہے جو اسی علاقے میں پاکستان کو تاجکستان سے بھی الگ کر دیتی ہے “پامیر” کا طویل اور دشوار گزار پہاڑی سلسلہ بھی یہاں افغانستان کے صوبہ بدخشاں میں واقع ہے اور اسی پہاڑی سلسلے سے جو دریا نکلتا ہے اس کو پنج اور پامیر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جو آگے جاکر دریائے آمو کا حصہ بنتا ہے یہ پٹی پاکستان کے علاقوں گلگت اور کشمیر سے بھی ملتی ہے سائز میں چھوٹی “واخان” کی پٹی کی انتہائی سٹریٹیجک یا تزویراتی اہمیت ہے اس فریٹ ٹرین کی افتتاحی تقریب چین کے شہر نان ٹونگ میں منعقد کی گئی تھی اور یہ صوبہ ژیانگ سو اور اس کا شہر نان ٹونگ چین کے روڈ اینڈ بیلٹ جیسے عظیم اقتصادی کوریڈور کا حب اور بنیادی مرکز بھی سمجھے جاتے ہیں صدیوں سے اقتصاد اور معاش قوموں کے عروج و زوال کا بنیادی نقطہ سمجھا جاتا ہے خود رسول اللہ علیہ السلام نے بھی کفار یعنی قریش کی تجارتی اور اقتصادی لائن کاٹنے اور قریش کی اقتصادی آکسیجن بند کرنے کے لئے مختلف اقدامات کئے تھے چین میں افغانستان کے سفیر مولوی بلال کریمی نے چین کے صوبہ ژیانگ سو کے شہر نانٹونگ میں چین کی حکومت کے خصوصی نمائندے یوشووایونگ اور دیگر چینی حکام کی موجودگی میں افغانستان اور چین کے درمیان مال بردار ٹرین کا افتتاح کیا یہ ٹرین برقی آلات کپڑے، کارگو اور دیگر سامان سے لدے 50 کنٹینرز لے کر افغانستان روانہ ہوگئی ہے جو 20 دنوں میں نانٹونگ شہر سے ہرات کے ہیراتان پورٹ پہنچے گی۔ ٹرین کے ذریعے یہ اقتصادی کوریڈور چینی حکومت کے ساتھ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا حصہ ہے جو دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ اقتصادی تعاون کو مضبوط کرے گا۔ ہمارے موجودہ حکمران ویژن سے محروم ہیں اگر شیر شاہ سوری جیسے افغان حکمران کا دور یاد کریں تو انہوں نے جی ٹی روڈ کو کامیابی سے ہمکنار کیا تھا جن کا منصوبہ تھا کہ مکہ تک یہ روڈ پھیلائی جائے لیکن بدقسمتی سے زندگی نے ان کا ساتھ نہیں دیا تھا۔
اسی طرح افغانستان کے پاس بھی چین کو برآمد کرنے کے لئے بڑی مقدار میں اشیاء موجود ہیں جن میں معدنیات، قیمتی پتھر، کوئلہ وغیرہ،فریش اور ڈرائی فروٹس شامل ہیں یہ کارگو ٹرین افغان مصنوعات چین کو پہنچائیگی جو چینی صارفین کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرے گی جس سے مشترکہ تعاون کے ایک نئے باب کا آغاز ہو گا۔اس فریٹ ٹرین کے افتتاح سے افغان تاجر اپنا سامان چین کی منڈیوں کو ایکسپورٹ کر سکیں گے اور چینی مصنوعات افغانستان کو آسان اور سستے داموں درآمد کر سکیں گے نان ٹونگ شہر کے متعلقہ حکام نے بھی افغان سفیر کو یقین دلایا ہے کہ وہ دونوں ممالک کے لئے اقتصادی رابطے کی مثال بننے کے لیے ٹرین کے ذریعے لین دین کے اس عمل کو جاری رکھیں گے اور اس کو دوام دینگے چین اور افغانستان کے مابین ریلوے ٹریک کو اقتصادی تعاون کے لئے استعمال کرنے سے واقعی افغانستان کا پاکستان سمیت دیگر پڑوسی ممالک پر انحصار کم ہو سکے گا اور خاص طور پر پاکستانی مصنوعات اور برآمدات کو بہت بڑا دھچکا ملیگا ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان کے اندر چین کی مصنوعات براستہ افغانستان آسکیں گی اور اس طرح تقریباً جنوبی ایشیا اور مرکزی ایشیا کی مارکیٹوں پر چائنہ کی مصنوعات کا قبضہ ہو سکے گا اور یہی چین کی بہترین سیاسی اور اقتصادی حکمت عملی ہے چین جنگوں کے ذریعے قبضہ کرکے کالونیاں نہیں بنا رہا بلکہ وہ ہنر اور سکیل کی بنیاد پر لگاتار محنت کرکے اقتصادی میدان میں دنیا پر اپنی صلاحیتوں کی بالادستی کا لوہا منوا رہا ہے اس کے مقابلے میں اگر پاکستان کی اقتصادی حالات کا جائزہ لیا جائے تو دل خون کے آنسو رو رہا ہے ایماندار، باصلاحیت اور مخلص سیاسی قیادت کی عدم موجودگی کی وجہ سے پاکستان خوساختہ بحرانوں سے دوچار ہے کشکول پاکستانی حکمرانوں کی گردنوں سے کبھی نہیں اترا اور اس کی وجوہات حکمران طبقات کی کرپشن، خود غرضی اور نااہلی ہیں اللہ تعالٰی نے پاکستان کو بہترین جغرافیائی محل وقوع سے نوازا ہے لیکن اس سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت سے بوجوہ محروم ہے پاکستان کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں افغانستان کی بہت بڑی منڈی ہمارے ہاتھوں سے نکل رہی ہے ہماری مصنوعات کی جگہ اب افغان مارکیٹوں میں دیگر ممالک کی مصنوعات جگہ بنا رہی ہیں اگرچہ طورخم اور چمن سرحدی راستوں کے ذریعے پاکستانی مصنوعات گھنٹوں میں افغانستان کے کونے کونے تک پہنچائی جا سکتی ہیں اور اگر ایشیا کے اس دل افغانستان کو بقول اقبال فساد سے پاک کرنے میں پاکستان کردار ادا کریں وہاں امن، سلامتی اور پائیدار حکومت کو مستحکم کرنے میں کردار ادا کریں تو براستہ افغانستان بہت بڑا موقع ہے کہ پاکستان اپنی مصنوعات سنٹرل ایشیا تک باآسانی پہنچا سکے اور وہاں کے قدرتی وسائل اور مضبوط کو پاکستان لا سکے اب تو حال یہ ہے کہ صرف طورخم بارڈر کے ذریعے بیلین ڈالرز کی تجارت گھٹتے گھٹتے ملین تک آرہی ہے جو کہ مایوسی کی بات ہے اگرچہ فی الحال بھی پاکستان کی طرف سے سیمنٹ، آٹا اور آٹے سے بننے والی مصنوعات وافر مقدار میں افغانستان جا رہی ہیں اور اسی طرح افغانستان سے کوئلہ، سبزیاں اور تازہ پھل آرہے ہیں پاکستان کسی بھی لحاظ سے سکیل اور مصنوعات کی پیداوار کے حوالے سے چائنہ کا مقابلہ نہیں کر سکتا تاہم اگر پاکستان نے افغانستان کے ساتھ تجارتی راستوں کو کھلا رکھا، غیر ضروری پابندیاں ہٹائیں، بلوچستان اور پختون خواہ میں کارخانے قائم کر دئے اور خاص کر ٹیکسوں اور محصولات میں کمی لائی تو اس سے دونوں ممالک کو فائدہ ہوگا پاکستان کی سخت پالیسیوں کی وجہ سے ایک عام مزدور سے لیکر تاجر اور ٹرانسپورٹرز تک سب لوگ پریشان ہیں سرحدوں پر کسٹم اہلکاروں کو اختیارات دئے جائیں اور سیکیورٹی فورسز کو صرف امن و امان کی ذمہ داری سونپی جائے اور این ایل سی کو سروس کی فراہمی تک محدود کیا جائے اس کے علاوہ پاکستان کو چاہئے کہ دن رات کام کرکے افغانستان تک ریلوے ٹریک اور کشادہ سڑکوں کا جال بچھائیں اور افغانستان کے ساتھ مضبوط برادرانہ تعلقات کو مستحکم کرتے ہوئے ان کے ساتھ اعتماد کو بحال رکھیں اور اس میں شبہ نہیں کہ افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات کے بغیر پاکستان براستہ افغانستان اپنی مصنوعات وسطی ایشیائی ممالک تک نہیں پہنچا سکتا اور نہ ہی وہاں کی مصنوعات کو ادھر لا سکتا ہے دوسری اہم بات یہ کہ چین کی پیروی کرتے ہوئے پاکستان اگر افغانستان کے ساتھ ٹیکس فری تجارت نہیں کر سکتا تو محصولات میں خاطر خواہ کمی لاکر تجارتی اہداف کو حاصل کر سکتا ہے اسی طرح افغانستان کے ساتھ سرحد پر آباد قبائل کو بھی دونوں ممالک کے درمیان نقل و حمل اور تجارت کرنے کے لئے خصوصی رعایت دینی ہوگی بارڈر کے آس پاس لوگوں پر سختی کی جائیگی تو اس سے باہمی اقتصادی روابط کو دوام دینا مشکل ہوگا۔

About Author

Leave A Reply