شہری زندگی سے دیہاتی زندگی کئی حوالوں سے بہتر ہوتی ہے اگر کوئی سوچیں۔ دیہاتی،گاؤں یا قبائل کے لوگ اکثر چاہتے ہیں کہ وہ گاؤں چھوڑ کر کسی شہر میں آباد ہوکر زندگی گزاریں بنیادی سوچ ہر دیہاتی یا قبائلی کی یہ ہوتی ہے کہ گاؤں کی زندگی سے شہروں میں زندگی کی سہولیات اور آسانیاں زیادہ ہوتی ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ دیہاتوں کے مقابلے میں شہروں کے اندر روزمرہ زندگی کی سہولیات زیادہ اور بہتر ہوتی ہیں مثلاً شہروں کے اندر سڑکیں اچھی حالت میں ہوتی ہیں، ہسپتال نسبتاً بہتر ہوتے ہیں سرکاری دفاتر زیادہ تر شہروں میں ہوتے ہیں اور خاص کر آفیسر شاہی کے دفاتر جن کو مقتدر ایلیٹ بھی کہہ سکتے ہیں شہروں کے اندر روزگار اور سرمایہ کاری کے مواقع بھی زیادہ ہوتے ہیں یہاں پاکستانی شہروں کے اندر گیس، پانی اور بجلی وغیرہ کی بھی زیادہ مشکل نہیں رہتی تعلیمی اداروں کا نیٹ ورک بھی شہروں کے اندر زیادہ اور قریب تر ہوتا ہے سب سے بڑھ کر شہروں میں کمیونیکیشن کا مسئلہ نہیں رہتا اگرچہ آج کل پشاور اور اسلام آباد جیسے شہروں میں بھی سیلولر فون کمپنیوں کے سگنلز اور نیٹ ورکس خراب کردئے گئے ہیں یہاں شہروں کے اندر مختلف علاقوں کے مختلف الخیال اور مختلف ثقافتوں کے علمبردار لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے جن کی زندگی کے طور طریقے الگ اور مختلف ہوتے ہیں تاہم اگر موجودہ حالات کے تناظر میں اور تاریخی طور پر دیکھا جائے تو کئی حوالوں سے گاؤں اور دیہاتی زندگی شہروں کے اندر زندگی گزارنے سے کافی بہتر ہوتی ہے ہمارے پیارے نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیدائش کے بعد ان کی دیکھ بھال، نشوونما اور تربیت کی غرض سے جب آپ کو بی بی حلیمہ کے سپرد کر دیا گیا تھا تو اس کے پیچھے بنیادی سوچ یہ کارفرما تھی کہ مکہ شہر سے دور کسی دیہات کی خالص زندگی میں آپ علیہ السلام کی نشوونما، بڑھوتری اور تربیت ہو سکے اور قبائلی دیہاتی لوگوں کے اندر بڑھ کر وہ حقیقی عرب تہذیب و تمدن اور خالص ادبی عربی زبان سے واقفیت حاصل کر سکے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ گاؤں اور دیہات کی زندگی خالص ہوتی ہے وہاں کوئی ملاوٹ نہیں ہوتی دیہات اور قبائل کے لوگ تہذیب و تمدن سے آگاہ اور اپنی ثقافت کی روشنی میں شب و روز گزارتے ہیں شہروں کے اندر آباد ہونے سے سب سے پہلے جو چیز متاثر ہوتی ہے وہ زبان اور ڈائلیکٹ ہوتی ہے یعنی شہروں کے اندر مختلف زبانوں کے بول چال اور ڈائلیکٹ کی آمیزش ہوتی ہے جس سے آپ نہ ادھر کے رہتے ہیں اور نہ ادھر کے اور پھر طرز زندگی پر شہروں کے اندر رائج مخلوط ثقافتوں کا اثر ظاہر ہونا شروع ہوتا ہے زبان، بول چال اور پشتو کے حروف تہجی کی ادائیگی کے حوالے سے نسبتاً وزیرستان کے لوگوں کو مضبوط اور پائیدار پایا ہے اور بول چال کے حوالے سے سب سے کمزور اپنے آفریدی قبیلے کے لوگوں کو پایا ہے جو شہروں کے اندر آتے ہی اپنا لہجہ، الفاظ کی ادائیگی، اسلوب بیان، طرز کلام جیسے ڈائلیکٹ بھی کہتے ہیں تبدیل کر دیتے ہیں اور اس کا زیادہ اور فوری اثر بچوں اور نوجوانوں پر ہوتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید ہماری زبان اور الفاظ میں سختی اور کرختگی زیادہ ہوتی ہے جبکہ بندوبستی اضلاع کے لوگ ذرہ نرم قسم کے الفاظ اور لہجے استعمال کرتے ہیں حالانکہ تاریخی طور پر اگر پختون قوم کو دیکھا اور پڑھا جائے تو ان میں آفریدی قبیلہ بہت ہی پرانا، تاریخی بلکہ قبل از مسیح بتایا جاتا ہے بحر حال بات ہو رہی تھی زبان اور ثقافتوں کی تو زبان کے بعد “ثقافت” کا اگر جائزہ لیا جائے جو “تہذیب” کے مقابلے میں کچھ محدود معنی رکھنے والا لفظ ہے تو شہروں میں آکر دیہات اور گاؤں کے لوگ بھی چند مہینوں کے اندر تبدیل ہو جاتے ہیں اکثر دیہاتی لوگ زیادہ تر کوشش کرتے ہیں کہ وہ شہروں میں حجرہ اور بیٹھک نہ رکھیں خاص کر وہ لوگ جو کرایہ دیکر گھر رکھتے ہیں اور جن کے ہاں حجرہ یا بیٹھک ہوتا ہے مگر وہاں بمشکل عام آدمی جس کی کسی کے ساتھ جان پہچان نہیں ہوتی ہے جاکر ٹہر سکتا ہے مطلب گھر کے مالکان نہیں چاہتے کہ ان کے پاس کوئی اپنا بھی مہمان ٹہریں جبکہ گاؤں کے لوگ مہمان سے یہ نہیں پوچھتے کہ وہ کس کا مہمان ہے بلکہ وضو کے لئے لوٹا اور پانی اور کھانے کے وقت جو کچھ تیار ہو وہ پیش کر دیتے ہیں تو مہمان نوازی اور اکرام مہمان کے حوالے سے دیہات اور قبائل کی زندگی شہروں کی زندگی سے بدرجہ اتم بہتر ہوتی ہے اور یہی ہماری پختون ثقافت، تمدن اور مہمان نوازی کا ایک نمایاں وصف ہے جس کو شہری زندگی میں بمشکل تلاش کیا جا سکتا ہے باالفاظ دیگر شہری زندگی زیادہ تر خود غرضی پر مبنی ہوتی ہے جبکہ دیہاتی زندگی اخلاص اور قربانی کے جذبے پر قائم ہوتی ہے شہروں کے اندر آباد لوگ بمشکل ایکدوسرے کی حالت پوچھتے ہیں اور نہ کوئی پڑوسی کی بھی تکلیف سے آگاہی حاصل کرکے ہاتھ بٹاتے ہیں نفسا نفسی کی زندگی شہروں میں دکھائی دیتی ہے جبکہ دیہاتوں میں لوگ ایکدوسرے کی غمی خوشی میں شریک ہوتے ہیں اور تعاؤن کرتے ہیں شہروں میں وہ لوگ مل جل رکھتے ہیں جن کا مفاد یا کاروبار ایکدوسرے سے منسلک ہوتا ہے شہر کی زندگی انفرادیت کی طرف لے جاتی ہے جبکہ گاؤں کی زندگی اجتماعیت پر مبنی ہوتی ہے اس موضوع کے دیگر پہلو بھی ہیں لیکن اختصار سے بچنے کے لئے گاؤں اور دیہاتوں کے لوگوں کو چند مشورے دینا ضروری سمجھتا ہوں گاؤں کے لوگ ہر سہولت سے محروم بھی نہیں ہوتے وہ اگر چاہے تو اپنے بچوں کو تعلیم اور ہنر سکھا سکتے ہیں اور ضروری ہے کہ ٹیکنیکل اور ووکیشنل شعبوں کی طرف دھیان دیا جائے کیونکہ اکیڈمک تعلیم ناقص اور بے فائدہ ہو کر رہ گئی ہے جس نے نئی نسل کو بگاڑ اور فساد کی راہ پر ڈال دیا ہے اور اس فرسودہ نظام تعلیم کی بدولت ہم اچھی روایات، تہذیب و تمدن، ثقافت و کردار اور تاریخ اور حتیٰ کہ دین اسلام سے بھی بیگانہ ہوتے جا رہے ہیں اجتماعی کوششوں کے ذریعے دیہاتی زندگی میں ضروریات زندگی کی فراہمی کو ممکن بنا کر استفادہ کیا جا سکتا ہے ہماری روایات اور ثقافت بھی ہمیں اجتماعیت کا درس دیتی ہے انفرادیت تو مغربی معاشرے کی عکاس اور خرابی ہے دیہاتی لوگ شہروں کے اندر آباد لوگوں کے مقابلے میں حیاء، اخلاق اور کردار کے بھی کھرے ہوتے ہیں دیہاتی زندگی خالص اور ملاوٹ سے پاک ہوتی ہے اور ان اچھی خوبیوں کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے نوجوانوں کو اپنے دین،تہذیب و تمدن اور تاریخ و ثقافت سے جوڑے اور وابستہ رکھنے کی ضرورت ہے جن پر ہم اپنے دیہاتی اور قبائلی معاشرے کو اتنا مضبوط کھڑا رکھ سکیں جس کے اچھے اثرات شہری زندگی پر مرتب ہو سکے شہری زندگی کی چمک دمک کے اندر بیش بہا خرابیاں بھی موجود ہیں جن سے باخبر رہ کر دور رہنا چاہئے قبائلی دیہاتی معاشرے کے اندر لڑکیوں کی معیاری تعلیم اور ہنرسکھانے والے اداروں کے قیام کی اشد ضرورت ہے اور اگر قبائل و دیہات کے لوگ لڑکیوں کو تعلیم و ہنر دینے میں کامیاب ہوگئے تو ان کا مستقبل محفوظ اور روشن بنایا جاسکتا ہے بس شہروں کے اندر موجود انسانی وسائل اور سہولیات کو دیہاتی اور قبائلی معاشرے میں لانے کے لئے مربوط، منظم اور اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ ہر قسم کی آلودگی سے پاک صاف ماحول میں ہم اپنی نئی نسل کو بہتر زندگی گزارنے کے مواقع دے سکیں۔