پہلی بار کسی پاکستانی لیڈر کو غریبوں کا مقدمہ لڑتے دیکھا جماعت اسلامی پاکستان کے سربراہ انجینئر حافظ نعیم الرحمان نے واضح طور پر کہا ہے کہ حکومت تو جعلی ہے فارم 47 کے ذریعے بنا دی گئی ہے تاہم پھر بھی وہ اس موقع پر حکومت گرانے نے نہیں نکلے ہیں حکومت تو خود ہی گرنے والی ہے، وہ ری الیکشن کا مطالبہ بھی نہیں کرتے بس فارم 45 پڑے ہوئے ہیں ان کو دیکھ کر ہر حقدار کو اپنا حق دیں مگر وہ 24 کروڑ عوام کے حقوق ان حکمرانوں سے لینے اسلام آباد کی سڑکوں پر دھرنا دئے بیٹھے ہیں انجینئر حافظ نعیم الرحمان نے اپنے مطالبات بھی واضح طور پر بیان کر دئے ہیں کہتے ہیں کہ آئی پی پیز کے ساتھ کئے گئے شرمناک اور ظالمانہ معاہدے فی الفور ختم کئے جائیں یہ معاہدے ملک و قوم کے مفاد میں نہیں کئے گئے ہیں 90 کے عشرے میں نواز شریف کے دور حکومت میں یہ معاہدے کئے گئے تھے حالانکہ اگر یہ نجی پاور پلانٹس بجلی نہ بھی بنائیں تب بھی کیپیسٹی چارجز کے نام پر ان پاور کمپنیوں کو ڈالرز میں ادائیگی کرنی پڑتی ہے اور کمپنیاں کسی غیر ملکی افراد کی نہیں خود اپنے پاکستانیوں کی ہیں اب تو پورا پاکستان سمجھ گیا ہے کہ اس میں برسر اقتدار رہنے والی تمام جماعتوں سے وابستہ سیاسی شخصیات ملوث رہے ہیں اور یہ کمپنیاں انہی سیاسی لوگوں کی ملکیت ہیں جو بجلی نہ بنانے کی صورت میں بھی کروڑوں اور اربوں روپے ماہانہ لیتی ہیں بہت منافع بخش کاروبار شروع کر دیا گیا ہے حالانکہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا اور شمالی علاقہ جات میں پانی سے بجلی پیدا کرنے کی مبینہ طور پر کافی گنجائش موجود ہے لیکن کیا کریں اس ملک پر کرپٹ لوگ مسلط ہیں جن کو پاکستان اور عوام کی ترقی اور خوشحالی کی کوئی فکر دامن گیر نہیں مجھے افسوس اس بات پر ہو رہا ہے کہ 24 کروڑ عوام نااہل اور کرپٹ حکمرانوں کی وجہ سے ذلت کی زندگی گزار رہے ہیں بے پناہ مشکلات سے دوچار ہیں خودکشیاں کر رہے ہیں تاہم میدان عمل میں آکر اپنا آئینی اور جمہوری حق بھی استعمال نہیں کرتے ہیں پرامن احتجاج کو فضول سمجھتے ہیں شاید اس لئے گھروں کے اندر تکالیف سے بھری زندگی گزارنے پر راضی ہیں اگرچہ پاکستان کو اللہ نے بہترین زمین، آب و ہوا اور قدرتی وسائل سے نوازا ہے بس اگر کمی ہے تو دیانت دار قیادت کی کمی ہے باصلاحیت قیادت کی کمی ہے جس کو اس ملک اور اس میں آباد لوگوں سے پیار ہو غریب عوام بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے پریشان ہیں بجلی اور گیس ناقابل استعمال بنا دی گئی ہیں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے مختلف نوعیت کی کٹوتی کی جاتی ہیں مراعات یافتہ طبقہ اور بڑے آفسران کو گھر، بجلی، گیس، گاڑی اور ٹیلی فون کی سہولیات مفت فراہم کی گئی ہیں آخر کیوں؟ مہنگائی تو آسمان سے باتیں کر رہی ہے اشیاء خوردونوش کو صرف دیکھا جا سکتا ہے خریدنا ممکن نہیں رہا ایسے حالات میں اگر جماعت اسلامی کے ہزاروں کارکن اپنے امیر انجینئر حافظ نعیم الرحمان کی قیادت میں اس شدید گرمی کے موسم میں کھلے آسمان تلے اسلام آباد اور راولپنڈی کی سڑکوں پر پڑے ہیں تو قوم کو ان کا ممنون ہونا چاہئے انجینئر حافظ نعیم الرحمان واقعی جھوٹ نہیں بولتے اور نہ ہی کوئی سیاسی سکورنگ کر رہے ہیں سارے لوگوں کو ان کی پشت پر کھڑا ہونا چاہئے یہی ایک مخلص بندہ ہے جو اس قوم کا درد سینے میں لئے باہر آیا ہے باقی تو سب ذاتی مفادات کے لئے بولتے رہے ہیں واقعی حافظ نعیم الرحمان مخلص انسان ہیں ورنہ اس بے حس اور سوئی ہوئی غافل قوم کی خاطر کون ذاتی زندگی برباد کر سکتا ہے جو مسائل وہ بیان کر رہے ہیں وہ عوام کے مسائل ہیں ہونا چاہئے تھا کہ اس پرامن احتجاج میں کروڑوں لوگ ان کی آواز اور اپیل پر نکل کر اسلام آباد کی طرف چل پڑتے یہ جماعت اسلامی کے چند ہزار افراد کا مسئلہ نہیں یہ کوئی انتخابی مہم بھی نہیں اور نہ ہی اس موقع پر اقتدار حاصل کرنا مقصود ہے انجینئر حافظ نعیم الرحمان تو کہتے ہیں کہ اگر حکومت مذاکرات کرنا چاہتی ہے تو سنجیدگی اختیار کریں محض احتجاج ختم کرکے معاملے کو رفع دفع کرنے سے بات آگے نہیں بڑھے گی انجینئر حافظ نعیم الرحمان بھر پور عزم اور پلان کے ساتھ اسلام آباد کے اندر موجود ہیں وہ کبھی خالی ہاتھ واپس نہیں جائیگا بیشک لاکھوں لوگ نہیں ہونگے لیکن ہزاروں کی یہ تعداد بھی مخلصین کی ہے جو حکومت کی ناک میں دم کر سکتے ہیں جماعت اسلامی اگر پرامن اور منظم جماعت ہے تو اس کی یہ بھی تاریخ رہی ہے کہ جب کسی حکمران کے گریبان میں ہاتھ ڈالتی ہے تو پھر اپنا مقصد حاصل کرکے واپس چلی جاتی ہے غرض اس بار تو خالص عوامی ایشوز اور مسائل کی بنیاد پر جماعت اسلامی باہر آئی ہے جو مسائل حافظ نعیم الرحمان بیان کر رہے ہیں وہ واقعی غریب عوام کے مسائل ہیں جن سے غریب اور متوسط طبقہ پریشان ہے ملک اور خاص کر خیبر پختون خواہ میں امن و امان کے بھی سنگین مسائل ہیں لوگ تکلیف میں ہیں کسی کی جان و مال محفوظ نہیں ہر ادارہ متعین آئینی حدود پامال کر رہا ہے بے روزگاری بڑھ رہی ہے پریشانیوں کی وجہ سے پاکستان کے نوجوان، تعلیم یافتہ اور باصلاحیت طبقہ ملک سے ہر صورت بھاگنے کی کوشش کر رہا ہے ہر سال لاکھوں نوجوان ملک سے باہر جاتے ہیں یہ انتہائی مایوس کن صورتحال ہے لیکن مقتدر اشرافیہ، جنرلوں ،ججوں اور بیوروکریسی کو کوئی فکر نہیں یہ ملک عوام کا ہے اور اس کو صرف عوام ہی بچا سکتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ عوام بھی پرامن اور منظم طریقے سے احتجاج تو کریں حافظ نعیم الرحمان جیسی شخصیت کی پشت پر کھڑے ہوکر ابن الوقتوں کے گرداب اور بھنور سے باہر آئیں ورنہ تاخیر سے اٹھنے سے پھر کچھ نہیں بچے گا دلوں کے راز اور نیتوں کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن میں ذاتی طور پر دعاگو ہوں کہ اللہ تعالٰی انجینئر حافظ نعیم الرحمان، ان کی ٹیم اور ان کے کارکنوں کو ہمت، طاقت اور حوصلہ دیں تاکہ ان کے ہاتھوں غریبوں کو ان ظالموں سے نجات ملے یا پھر یہ مظالم ختم کرنے کی سبیل پیدا کریں کیونکہ مایوسی بہت بڑھ رہی ہے عوام اِنتہائی پریشان ہیں اور اس مایوسی کے اندر انتقام اور جذبات کی خطرناک چنگاریاں دیکھ رہا ہوں خدانخواستہ عوام غیر منظم انداز میں آٹھ گئے اور بپھر گئے تو پھر کوئی قوت ان کو سنبھال نہیں سکے گی پھر ہر طرف انتشار ہوگا اور افراتفری ہوگی اس لئے پاکستان کے ساتھ اگر یہ حکمران طبقات مخلص ہیں تو انجینئر حافظ نعیم الرحمان کے ساتھ بیٹھ کر عوام کو ریلیف دیں، اپنی عیاشیاں،پروٹوکول، فضول خرچیاں ختم کرنے کا معاہدہ کریں، کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں، مہنگائی کنٹرول کرنے کے لئے ہنگامی اقدامات کریں، بارڈر پر سہولیات دیکر کاروبار میں اضافہ کریں اور اوپر سے نیچے تک کسی بھی ادارے اور شخصیت کو کوئی سہولت مفت میں نہ دیں آئین اور قانون پر خود بھی چلیں اور دوسروں سے بھی تقاضا کریں بجلی کے نجی پاور پلانٹس کو بند کریں، پانی، کوئلے اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شروع کریں، چھوٹے بڑے ڈیمز بنائیں اور خیبر پختونخوا بالخصوص قبائلی علاقوں میں امن کے قیام کو یقینی بنائیں یہی حافظ نعیم الرحمان کے بھی مطالبات ہیں دراصل یہ عوامی مطالبات ہیں نیز سوشل میڈیا پر پابندی سے گریز کریں زیادہ پابندیاں لگائیں گے تو معاملہ مذید خراب ہو سکتا ہے پوری قوم اضطراب اوت تکلیف سے دوچار ہے اگر حکمران ہوش کے ناخن نہیں لینگے تو پھر بعد میں پچھتاوا کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا مزید قوم کی برداشت جواب دے چکی ہے خیبر پختونخوا تو سارا احتجاج پر ہے ہر جگہ امن مارچ ہو رہے ہیں اور بہت خطرناک قسم کے نعرے سنائی دیتے ہیں ان باتوں کو ہلکا لیکر نظر انداز کرنے سے بہت بڑا نقصان ہو سکتا ہے سدھرنے کا وقت ہے ٹال مٹول سے کام خراب ہو سکتا ہے۔