افغانوں کی واپسی بری بات نہیں! سدھیر آفریدی - Eye News Network

افغانوں کی واپسی بری بات نہیں! سدھیر آفریدی

0

افغانوں کی واپسی بری بات نہیں! سدھیر آفریدی

     1979

میں سویت یونین، موجودہ روس نے افغانستان پر حملہ کیا اور 1989 تک افغانستان پر روس مسلط رہا ان دس سالوں میں افغانستان کے چپے چپے پر افغان مجاہدین نے بھر پور گوریلہ جنگ لڑی اور آخر کار روسی افواج اور بڑی جنگی مشینری کو ہزیمت اور بدترین شکست سے دوچار ہو کر افغانستان سے نکلنا پڑا روس اس وقت کمیونزم کا علمبردار تھا اور کمیونزم کا نظریہ دنیا پر مسلط کرنا چاہتا تھا جس کو عرف عام میں دہریت بھی کہا جاتا تھا اور شاید یہی وجہ تھی کی کمیونزم کی دہریت کے خلاف نہ صرف باقی عالم کفر متحد ہوا بلکہ اس نظریے نے پوری دنیا کے مسلمانوں اور خاص کر مجاہدین کو بھی کمیونزم اور روسی افواج کے خلاف متحد ہونے پر مجبور کر دیا کیونکہ ساری دنیا روس کے فلسفہ کمیونزم سے خوفزدہ تھی اور کمیوزم براہ راست کیپٹلزم کے لئے خطرہ قرار پائی جس کا سرخیل امریکہ رہا ہے بحر حال روسی افواج کی جارحیت کے بعد افغانوں نے بے سروسامانی کے ساتھ لاکھوں کی تعداد میں پاکستان کا رخ کیا یہ امریکہ اور عالمی دنیا کا دباؤ تھا یا بھائی چارے کا تقاضا تھا کہ پاکستان نے تمام سرحدات کو افغان مہاجرین کے لئے کھول دیا اور دن رات بناء کسی روک ٹوک کے افغان مہاجرین پاکستان میں داخل ہوتے رہے ہر پاکستانی نے افغانوں کو ویلکم کہا اور رہنے کے لئے جگہ دی، تاہم قبائلی پختونوں نے حقیقی معنوں میں انصار مدینہ کا کردار ادا کرتے ہوئے افغان مہاجرین کو اپنے گھروں میں بسا کر پناہ دی میں چھوٹا تھا جب کچھ افغان خاندانوں نے دربند افغانستان سے مہاجرت کرتے ہوئے آختر شاہ اور ان کے بھائی آمین شاہ وغیرہ کی قیادت میں ہمارے ذاتی گاؤں کا رخ کیا اور ڈھیرے ڈال دئے مجھے آج بھی یاد ہے کہ عمل شاہ اور طارق شاہ وغیرہ نے گاڑی سے اتر کر ادھر ادھر ایسے چھلانگیں مارنا شروع کر دیں جیسے کئی دنوں بند کسی جانور کو آزاد کر دیا جاتا۔

چالیس سال سے اوپر ہوگئے کہ پاکستان چالیس لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ افغانوں کا بوجھ برداشت کرتا رہا ہے جس طرح انصار مدینہ نے مہاجر مکہ کے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو بازار کا راستہ دکھایا تھا بلکل اسی طرح پاکستانیوں نے افغانوں کو کاروبار اور روزگار کے گر اور طریقے سکھائے اوراپنی خداداد صلاحیتوں اور انتھک محنت کی بدولت افغانوں نے پاکستان میں بےپناہ دولت اور عزت کمائی، ان کے بچوں اور بچیوں نے یہاں کے تعلیمی اداروں میں اعلٰی تعلیم حاصل کی، یہاں پاکستان میں انہوں نے منقولہ اور غیر منقولہ جائیدادیں بنائیں اور ان کے مریضوں کا پاکستانی ہسپتالوں میں ایسا علاج ہوتا رہا جیسے اپنوں کا ہوتا ہے غرض پاکستان نے بطور ریاست اور پاکستانیوں باالخصوص پختونوں نے افغانوں کی مہمان نوازی اور عزت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر افسوس کہ زیادہ تر افغان احسان فراموش ہیں اور یہ تمام قربانیاں نہیں دیکھتے بلکہ الٹا کہتے چلے آرہے ہیں کہ پاکستان نے افغان مہاجرین کی وجہ سے پوری دنیا اور اقوام متحدہ سے ڈالرز وصول کئے ہیں اللہ کے بندوں وسط ایشیائی ممالک کئی دہائیوں تک روس کے زیر تسلط رہے بلکہ آج تک وہ روس کے غلام ہیں روسی سامراج نے وسط ایشیائی ممالک کی زبان، تہذیب اور ثقافت سب کچھ ملیا میٹ کرکے رکھ دی ہیں ان کے وسائل استعمال کئے مگر وسط ایشیائی ممالک سے کوئی مہاجر بن کر شاید نہیں نکلا کیونکہ ان کے پڑوس میں ایسے اسلامی ممالک نہیں تھے جو ان کو پناہ دیتے یہ تو افغانوں کی خوش قسمتی ہے کہ ان کے پڑوسی پاکستان اور ایران ہیں پاکستان میں افغانوں کو پناہ دینے اور ان کے مجاہدین کو تربیت دیکر افغانستان میں لڑانے کا پہلا منصوبہ پیپلزپارٹی کے بانی چئیرمین اور پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کر دیا تھا اور یہ کام بنیادی طور پر اپنے دوست اور پارٹی ورکر میجرجنرل ریٹائرڈ نصیر اللہ خان بابر کے سپرد کر دیا تھا اور اس وقت کے یہی وزیر داخلہ میجر جنرل ریٹائرڈ نصیر اللہ خان بابر اور وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی تھے جنہوں نے خاتون وزیراعظم پاکستان بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں کوئٹہ اور قندھار میں طالبان کی بنیاد رکھ کر سرپرستی شروع کی اور مجاہدین کو توڑ کر طالبان بنائے جن کی قیادت  ملا عمر کے سپرد کر دی یہ سب کچھ کس کے کہنے اور ہدایت پر کیا گیا تھا فی الحال یہ موضوع نہیں تاہم پاکستانی ڈکٹیٹر جنرل ضیاءالحق نے شتر بے مہار کی طرح لاکھوں افغان مہاجرین کو کھلا چھوڑ دیا جو رہائشی اور تربیتی کیمپس بنائے گئے تھے وہاں بھی افغانوں پر کیمپس کے اندر رہنے اور ضروریات پوری کرنے کی پابندی نہیں تھی جس کے نتیجے میں جرائم بڑھتے گئے، کلاشنکوف اور ہیروئین کلچر متعارف ہوئے اور پاکستان کے محدود قدرتی وسائل کا ستیاناس کر دیا گیا جو تھوڑا بہت روزگار تھا وہ بھی افغانوں نے چھین لیا ہے اگرچہ یہ ان کی جفاکشی اور محنت مزدوری کا منہ بولتا ثبوت ہے اور ہم پاکستانی پختون بیکار پرزے ثابت ہوئے یہی وجہ ہے کہ آج کم از کم خیبرپختونخوا میں افغانستان کے شہری پختون خواہ کے باسیوں سے بہترین زندگی گزار رہے ہیں اور یہاں سے ہر گھر کے دو اور تین بندے یورپ اور امریکہ کی شہریت بھی حاصل کر چکے ہیں واقعی کچھ کمالات تو ان کے قابل تعریف ہیں پاکستان کے مقابلے میں ایران نے افغان مہاجرین کو مخصوص کیمپوں تک محدود کر دیا تھا جہاں سے ان کا نکل کر آزاد گھومنا جوئے شیر لانے کے برابر تھا اور جب روس افغانستان سے نکل گیا تو ایران نے بھی افغانوں کو اپنے وطن کی راہ دکھائی مجال ہے کوئی افغانی ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کی سرحدات کو بغیر قانونی سفری دستاویزات کے پار کر سکے لیکن پاکستان میں ان کا آنا جانا بغیر روک ٹوک کے ہر وقت جاری رہا پھر بھی پاکستان زیادہ تر احسان فراموش افغانوں کی نظروں میں کھٹکتا ہے اور سب سے زیادہ برا بلا پاکستان کو کہتے ہیں اسی طرح اگست 2021 میں جب طالبان دوسری مرتبہ بزور طاقت کابل پر قابض ہوگئے تو ایک لاکھ سے زیادہ افغان شہری بھاگ کر پھر پاکستان آئے افسوس اس بات پر بھی ہے کہ جب امریکہ اور نیٹو افغانستان پر مسلط تھے تو یہ افغان وہاں خوش تھے پھر جب کرزئی حکومت آئی تب بھی خوش تھے اور اشرف غنی کی حکومت میں تو ان کے وارے نیارے تھے لیکن اسلامی سوچ اور نظریے کی بنیاد پر بننے والی طالبان حکومت میں خوش دکھائی نہیں دیتے حالانکہ طالبان نے عام معافی کا اعلان کر رکھا ہے اور تمام سرمایہ دار، ہنر مند اور تعلیم یافتہ افغانوں سے اپیل کرتے رہے ہیں کہ وہ آئین اور افغانستان کی تعمیر نو میں اپنا سرمایہ، وسائل، اور صلاحیت استعمال کر کے کردار ادا کریں لیکن افسوس کہ یہ صلاحیتوں اور وسائل سے مالامال افغان شہری ایسا نہیں کرتے ہیں حالانکہ اس وقت پورے افغانستان میں مثالی امن قائم ہے اور بدامنی کا خاتمہ ہو چکا ہے سارے افغان راسخ العقیدہ مسلمان ہیں لیکن طالبان کیطرف سے نافذ کردہ اسلامی شریعت سے خوفزدہ دکھائی دیتے ہیں اگر افغان شہریوں کو افغانستان سے پیار اور محبت ہے تو وہ جہاں کہیں بھی آباد ہیں وہاں سے نکل کر اپنے آبائی وطن افغانستان کا رخ کریں۔

اس کی تعمیر نو اور ترقی میں ہر کوئی اپنا کردار ادا کریں افغان شہری اور افغانستان کی طالبان حکومت کو چاہئے کہ وہ پاکستان سمیت تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو درست رکھیں اور افغانستان کی سرزمین کسی بھی ملک بشمول پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے لئے استعمال نہ ہونے دیں اور تعلیم اور روزگار کے سلسلے میں کسی پر کوئی پابندی عائد نہ کریں لڑکیوں کے لئے افغانستان میں الگ تعلیمی ادارے قائم کریں لیکن ان کی تعلیم پر پابندی اسلامی اصولوں کے خلاف ہے افغان لڑکیاں اگر ڈاکٹرز بنیں گی تو افغان خواتین کو مردوں سے علاج نہیں کروانا پڑیگا اور پھر افغان بچیوں کو افغان خواتین استانیاں پڑھائیں گی چونکہ پاکستان خود معاشی بحران سے دوچار ہے اور یہاں امن و امان کے سنگین مسائل ہیں اس لئے نگران حکومت اور آرمی چیف نے اگر چالیس لاکھ سے اوپر رہائش پذیر افغان شہریوں کو افغانستان واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے تو غلط نہیں کیا ہمارے وسائل محدود اور مسائل زیادہ ہیں اس لئے افغان شہریوں کو باعزت طریقے سے رخصت کرنے میں کوئی برائی نہیں تاہم بہترین منصوبہ بندی کے ساتھ یہ کام کرنا چاہئے اور پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہئے کہ وہ اس موقع پر افغانوں کے ساتھ برا سلوک نہ کریں، اچھا رویہ رکھیں اور کسی کو رشوت کی خاطر تنگ نہ کریں افغان ہمارے بھائی ہیں علامہ اقبال نے درست کہا تھا کہ افغانستان ایشیا کا دل ہے افغانستان میں فساد ہوگا تو یہ سارا خطہ پریشان ہوگا اور اگر افغانستان میں امن و سکون ہوگا تو خطے کے تمام ممالک خوشحال ہونگے اس لئے پاکستان ماضی کی طرح افغانوں کو بے یارومدگار  نہ چھوڑیں افغانستان کے اندر سڑکوں، ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کے تعمیر و قیام میں سب سے بڑھ کر کردار ادا کریں تاکہ افغانوں کی ہر ضرورت اپنے ملک میں پوری ہو سکے افغان بھائیوں سے درخواست ہے کہ وہ پاکستان کی مجبوریوں کو سمجھتے ہوئے وطن واپسی کے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار نہ کریں بلکہ بخوشی اس فیصلے کو قبول کرتے ہوئے شکریے کے ساتھ رضاکارانہ طور پر واپسی شروع کریں اور اسی میں دونوں ممالک کی بہتری ہے۔

About Author

Leave A Reply