اصل امتحان تو اب شروع ہوا! سدھیر احمد آفریدی - Eye News Network

اصل امتحان تو اب شروع ہوا! سدھیر احمد آفریدی

0

 ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی
15 اگست کی شب طالبان نے جس سرعت اور خاموشی سے افغانستان کے دارالحکومت کابل پر قبضہ کرکے ایوان صدر میں داخل ہوئے “جس کو افغان ارگ کہتے ہیں” اس نے نہ صرف افغانستان کے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرنے والے سابق صدر اشرف غنی، ان کے خفیہ اداروں کی رپورٹس اور معلومات کو غلط ثابت کر دیا بلکہ افغانستان پر بیس سال تک قبضہ کرنے والی امریکی اور نیٹو فورسز کی فراہم کردہ معلومات کو بھی ناقص اور غلط ثابت کر دیا اور شاید یہی وجہ تھی کہ سابق افغان صدر کو رات کے اندھیرے میں کسی سے مشاورت کئے بغیر نکلنے پر مجبور ہونا پڑا گلبدین حکمتیار اور مولا ضعیف کے مطابق طے تو یہ تھا کہ طالبان کابل شہر کے دروازوں پر انتظار کرینگے اور کابل شہر پر مسلح چڑھائی نہیں کرینگے تاہم رات کے اندھیرے میں اشرف غنی کے ملک سے بھاگ نکلنے کے بعد شہر میں افراتفری، لوٹ مار اور گڑ بڑ پھیلنے کے اندیشے نے طالبان قیادت کو کابل شہر میں داخل ہونے پر مجبور ہونا پڑا جس کی وجہ سے حالات کنٹرول میں رہے اور ماسوائے کابل ائیر پورٹ کے کہیں اور سے کوئی ناخوشگوار واقعہ رپورٹ نہیں ہوا اور کابل ائیر پورٹ پر جو ہوا دنیا نے دیکھا جس کی ذمہ داری بلاشبہ امریکی فورسز پر عائد ہوتی ہے کیونکہ ائیر پورٹ ان کے کنٹرول میں تھا افغانستان میں گزشتہ بیس سالوں کے دوران کیا کچھ ہوا امریکہ اور نیٹو افواج نے ظلم، جبر اور بربریت کی کونسی داستانیں رقم کی اس پر مؤرخین بہت کچھ لکھ چکے ہیں اور آئندہ بھی لکھیں گے تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ سپر پاور امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی جو جدید ترین اسلحے، گولہ بارود اور تباہ کن ٹیکنالوجی سے لیس تھے وہ نہتے افغان مجاہدین کے ہاتھوں بد ترین شکست سے دوچار ہوئے اس لئے ان پر اقبال کا یہ شعر بلکل فٹ آتا ہے کہ
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
امریکہ ٹام ہاکس کروز میزائل، کلسٹر بموں، مدر آف آل بمز، بی باون طیاروں وغیرہ کا خوب استعمال کرکے بھی افغانستان پر اپنا قبضہ برقرار نہ رکھ سکے اور نہتے طالبان جنگجوؤں کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوئے طالبان نے اتنے بڑے دشمن امریکہ کو فدائین یعنی خود کش بمباروں کی مدد سے زمین چھاٹنے اور ناک رگڑنے پر مجبور کیا اور بالآخر امریکہ کے صدر جو بائڈن کو یہ کہنا پڑا کہ وہ افغانوں کی خاطر اپنے امریکی فوجی مزید نہیں مرواسکتے ان کی اس بات پر بھی افغانوں کو افسوس ہوتا ہے جب انہوں نے کہا کہ امریکہ نے اسامہ بن لادن اور ان کی القاعدہ کو ختم کرکے اپنا مقصد اور ہدف حاصل کیا ہے اور یہ کہ امریکہ پوری دنیا کو ساتھ لیکر افغانستان کی تعمیر نو کے لئے نہیں آیا تھا جو بائڈن کے ان بیانات سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کو افغانستان کی تعمیر نو، ترقی اور افغانوں کی کامیاب، پرامن اور خوشحال زندگی سے کوئی سروکار نہیں تھا بظاہر تو امریکہ اور نیٹو فورسز القاعدہ اور دہشت گرد تنظیموں کے خاتمے کے لئے آئی تھیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین اور پہاڑوں کے اندر چھپے قدرتی ذخائر، وسائل اور معدنیات کو قبضے میں لیکر لے جانا چاہتی تھیں اور ان کا خیال تھا کہ وہ افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ریاستوں کے قدرتی وسائل پر بھی قبضہ کر لینگی لیکن یو ایس اور نیٹو فورسز افغانوں کی تاریخ سے بے خبر نکلیں کہ افغانستان کئی صدیوں سے بڑی طاقتوں، جنگجوؤں اور فاتحین کا قبرستان ثابت ہو چکا ہے اس لیے انہوں نے افغان سرزمین پر قبضہ کرنے کی تاریخی غلطی کی اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ اتحادیوں سمیت بھر پور وسائل اور ٹیکنالوجی کے باوجود عبرتناک شکست کھا کر اور دم دبا کر بھاگ نکلی ہیں اور غبار آلود افغانوں نے امریکہ کا غرور خاک میں ملا دیا اب ضرورت اس بات کی ہے کہ طالبان قیادت پہلی فرصت میں مکمل امن کو یقینی بنائیں تاکہ مزید افغانوں کا خون نہ بہہ سکے ہر کسی کی جان و مال،آبرو اور گھروں کی حفاظت کو یقینی بنائیں کوئی لوٹ مار اور چوری نہ کر سکے اور کوئی کسی سے ذاتی انتقال نہ لے سکے امریکہ اور نیٹو افواج کو شکست دینا واقعی بہت بڑا اور تاریخی کارنامہ ہے لیکن افغان ملت بالعموم اور طالبان کی قیادت بالخصوص اب جس بڑے امتحان کا سامنا کر چکے ہیں اس میں ان کا سرخرو ہونا اصل امتحان ہے اور یہ کہ وہ امن قائم کرنے کے بعد بتدریج ایسے اقدامات کریں جس سے وہ افغانوں کے دل جیت سکے ان کو اس مقصد کے لئے آمادہ کریں کہ وہ افغانستان کی تعمیر نو، ترقی اور استحکام کے لئے ملکر شبانہ روز ایمانداری اور حب الوطنی کے جذبے کے تحت کام کریں افغان طالبان کو چاہئے کہ وہ افغان سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ساتھ بیٹھ کر اتفاق رائے سے عبوری مدت کے لئے نگران سیٹ اپ قائم کریں جو افغانوں اور عالمی طاقتوں کو قابل قبول ہو اگرچہ یہ افغانوں کا اندرونی معاملہ ہے جس میں وہ آزاد اور خودمختار ہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ افغانستان ایک لینڈ لاک ملک ہے جس کی درآمدات اور برآمدات سمیت بنیادی سہولیات اور ضروریات کا انحصار عالمی ترقی یافتہ دنیا اور بالخصوص پڑوسی ممالک پر ہے اس موقع پر یہ عقلمندی نہیں ہوگی کہ وہ ایسی پالیسیاں مرتب کرکے پیش کریں کہ جس سے وہ کسی بڑی طاقت کو چیلنج کریں یا پڑوسی ممالک خصوصاً پاکستان اور ایران کے لئے مشکلات کھڑی کریں چونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے حالات براہ راست ایکدوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں اس لئے بھی ضروری ہے کہ افغان طالبان مشاورت کے بعد جب عبوری کابینہ کا اعلان کریں تو پاکستان اور دیگر دوست اسلامی ممالک کے تجربات اور صلاحیتوں سے استفادہ کریں اور ہر شعبے کے اندر ماہرین مستعار لینے کی درخواست کریں تاکہ افغانیوں کو زندگی کے تمام شعبوں میں مہارت کی حد تک تربیت دی جا سکے تاکہ وہ افغانستان کے تمام شعبہ جات کو محدود ترین وسائل کے اندر رہتے ہوئے بطریق احسن چلا کر مختصر مدت میں افغان ملت کو زندگی کی تمام بنیادی سہولیات فراہم کر سکے ضد،ہٹ دھرمی، آنا، انتہاء پسندی اور شدت پسندی جیسے برے اوصاف کو پنپنے کا موقع نہیں دینا چاہئے اور یہ پھر کہوں گا کہ طالبان سمیت تمام افغانوں کا اصل امتحان اب شروع ہوا کہ وہ کس انداز سے ڈیلیور کرکے دنیا اور اپنے ہم وطن افغانوں کو مطمئن کرتے ہیں تاکہ کہیں سے ان کی کارکردگی پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے اگرچہ مکمل تو صرف اللہ کی ذات ہے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ ایک تہذیبی اور نظریاتی جنگ ہے مخالفین اس تھاک میں بیٹھے ہیں اور باریک بینی سے مشاہدہ کرکے جائزہ لے رہے ہیں کہ طالبان کی قیادت، ان کے فیصلوں اور اقدامات کے کمزور پہلوؤں کو تنقید کا نشانہ بنا کر ان کو دنیا میں رسوا کریں اس لئے پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے طالبان قیادت کے مامورین اور ماتحت منتظمین نے جس انداز سے ہسپتالوں، تعلیمی اداروں اور میڈیا کے ذمہ داران سے ملکر یقین دہانی کرائی کہ وہ اسلامی اصولوں اور اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے بلا خوف و خطر اپنا کام جاری رکھیں یہ بہت حوصلہ آفزاء بات تھی اسی طرح ذبیح اللہ مجاہد اور سہیل شاہین نے میڈیا پر آکر خواتین کے حقوق اور شریعت کے اندر دی گئی آزادی کے حوالے سے جو کچھ کہا اس کی وجہ سے مخالفین کے منہ بند ہوگئے طالبان قائدین بارہا کہہ چکے ہیں کہ اس بار ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائی جائینگی دنیا کو کوئی حق حاصل نہیں کہ طالبان کی حکومت یا اتفاق رائے سے بننے والی افغان حکومت اور عوام پر اپنی مرضی کے فیصلے مسلط کریں افغانستان ایک آزاد اور خود مختار ملک رہا ہے اور ہر ملک اپنے قومی مفاد میں بہتر فیصلے کرنے کا حق رکھتا ہے تاہم ہر پالیسی مرتب کرتے وقت بین الاقوامی سطح پر کئے گئے معاہدوں کا احترام کیا جانا چاہئے اگر وہ اسلام کی مخالفت میں نہیں ہم پاکستانی ہیں ہماری قومی پالیسی یہ ہے کہ ہم کسی کی مخالفت اور حمایت نہیں کرتے اور نہ ہی کوئی پسندیدہ ہے بلکہ ہم پرامن افغانستان اور افغان عوام کو خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں ہماری دعا ہے کہ افغانستان میں مزید قتل و غارت اور خون خرابہ نہ ہو اور طالبان کی قیادت نے یہ بھی سنجیدہ اور سمجھداری کی بات کی ہے کہ اب جنگ ختم ہو چکی ہے لہذا اب سارے افغان ملکر اپنے وطن کی تعمیر نو اور آباد کاری کے لئے دیانت داری سے کام کریں افغانستان کے پڑوسی ممالک خصوصاً پاکستان کو بھی مشورہ ہے کہ وہ افغانستان کی مدد کریں اور آزمائش کے اس موقع پر پہلے کی طرح افغانستان کو تنہا نہ چھوڑیں پرامن اور خوشحال افغانستان پڑوسی ممالک کے لئے خوشحالی کا باعث بنے گا۔

About Author

Leave A Reply