ملتان(رپورٹ: بلال صدیقی) مشہور یونانی مفکرافلاطون کا کہنا تھا کہ موسیقی انسان کے اندر کے جانور کو مار دیتی ہے اور شاہد وہ ٹھیک ہی کہتا تھا کیوں کہ ہمیں اپنی زندگی میں کئی کردار ایسے ملتے ہیں جو اوائل عمری سے ہی انتہا پسندانہ اور متشدد رویوں کے مالک ہوتے ہیں لیکن زندگی کے کسی موڑ پر شاعری اور موسیقی سے روشناز ہونے ہونے کے بعد ان کی رویے میں واضح تبدیلی آتی ہے۔
اسی طرح کا ایک کردار محمد اسلم خان ہیں جو کہ بستی بلوچاں، نائب پور کے رہائشی ہیں۔ اسلم خان نے بتایا کہ وہ انتہا پسندانہ نظریات کے مالک تھے اور ان کی مظعون میں ان کے فرقے کے علاوہ دوسرے تمام فرقوں اور مذاہب کے لوگ قابلِ نفرت تھے ۔” ایک دن مجھے اطلاع ملی کہ ہمارے علاقے میں کچھ سماجی تنظیمیں موسیقی اور شاعری کے پروگرام منعقد کروا رہی ہیں۔ جس پر میں طیش میں آ گیا اور ان تقریبات کو رکوانے کے لیے چلا گیا۔
منتظمین نے مجھے انتہائی عزت دی اور بیٹھنے کا کہا کچھ دیر بعد ایک صاحب نے کلام سنانا شروع کر دیا جس میں انسان کی بھلائی اور اس سے محبت کا درس تھا اس چیز نے میرا زہن تبدیل کر دیا اور آج میں انسانوں سے محبت کو عبادت سمجھتا ہوں۔
نائب پور میں ایک سماجی تنظیم سماج ڈویلپمینٹ فاؤنڈیشن کے پروجیکٹ منیجر اظہرعباس نے بتایا کہ اسلم خان نے اپنے سابقہ رویوں پر نہ صرف معذرت کی بلکہ وہ معاشرے میں امن اور ہم آہنگی کے فروغ کے لیے بھی کردار ادا کر رہے ہیں۔