رحیم یار خان میں لڑکی کا منگیتر پرجنسی زیادتی کا الزام، ملزم ایک اور لڑکی سے شادی سے قبل گرفتار - Eye News Network

رحیم یار خان میں لڑکی کا منگیتر پرجنسی زیادتی کا الزام، ملزم ایک اور لڑکی سے شادی سے قبل گرفتار

0

رحیم یارخان(ای این این) رحیم یار خان کے علائقہ ظفر آباد کالونی کی رہائشی روبینہ خانم جس کے خلاف چند روز قبل پولیس نے ساتھی کے ہمراہ گھر میں داخل ہوکر خاتون پر چھریوں سے حملہ کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کرکے اسے گرفتار کرنے کے بعد حوالات منتقل کردیا تھا، نے گزشتہ روز سول جج ذوالفقار علی مزاری کی عدالت میں پیشی کے دوران واویلہ کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ وہ ایم اے پاس اور مقامی اسکول میں بطور ٹیچر تعینات ہے۔

سال2012ء میں اس کی منگنی اسی علاقہ کے رہائشی طاہر نامی شخص سے ہوئی تھی جس نے منگنی کے بعد اس سے ملاقاتیں شروع کردیں۔انہیں ملاقاتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے منگیتر طاہر نے اسے متعدد بار اس کے مرضی کے خلاف زیادتی کانشانہ بنایا اس کے احتجاج کرنے پر منگیتر اسے تسلی دے کر خاموش کروا دیتا کہ جلد شادی ہونے والی ہے۔

اسی دوران اسے معلوم ہوا کہ اس کے منگیتر ملزم طاہر نے عفت بانو نامی خاتون سے نکاح کرلیا ہے جس پر اس نے اپنے ورثاء کو منگیتر طاہر کی جانب سے کی جانے والی جنسی زیادتی کے بارے میں آگاہ کردیا جس کی رنجش ملزم نے      د ل میں رکھی اور12جنوری کے روز وہ اپنے اسکول ملازم قمر ارسلان کے ہمراہ اسکول جارہی تھی کہ اسی دوران اسے ملزم منگیتر طاہر اور عفت بانو نے روک لیا اور خود ساختہ ضربات کا ڈرامہ رچا کر اس کے خلاف اسکول ملازم سمیت پولیس کی ملی بھگت سے مقدمہ درج کروا کر گرفتارکروادیا۔

متاثرہ روبینہ خانم نے عدالت سے استدعا کی کہ اس کے ساتھ جنسی زیادتی کے مرتکب سابقہ منگیتر طاہر کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے جس پر فاضل عدالت نے متاثرہ روبینہ خانم کے واویلہ پر پولیس کو فوری طورپر ملزم طاہر کے خلاف مقدمہ درج کرکے گرفتارکرنے کے احکامات جاری کردیئے جس پر پولیس نے ظفر آباد کالونی میں ملزم طاہر جوکہ اپنی شادی کی تقریبات میں مصروف تھا کو بارات سے قبل گرفتارکرکے حوالات منتقل کردیا اور نئی شادی کی تیاریاں دھری کی دھری رہ گئیں۔

اس سلسلہ میں رابطہ کرنے پر پولیس تھانہ سی ڈویژن نے بتایا کہ ملزم طاہر اور سابقہ منگیتر روبینہ خانم کا ڈی این اے مکمل کروالیا گیا ہے جبکہ گرفتار ملزم طاہر کو جیل بھجوادیا گیا ہے۔

About Author

Leave A Reply